اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ” لوگوں سے کہہ دیں کہ قیامت کب ہو گی، اس کا علم مجھے نہیں، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے “۔
اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بے اصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے، اعرابی کی صورت میں جبرائیل علیہ السلام نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے۔ [صحیح بخاری:50]
ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے نے باآواز بلند آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟“ اس نے کہا: میرے پاس روزے نماز کی کثرت تو نہیں البتہ اللہ اور رسول کی محبت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو اس کے ساتھ ہو گا جس کی تجھے محبت ہے“، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے [صحیح بخاری:6167]
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے“[ابن ابی الدنیا فی قصر الامل ص:28-29:ضعیف]
یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے، ابوداؤد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دیدے ۔ [سنن ابوداود:4349،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا: پانچ سو سال۔ [سنن ابوداود:4350،قال الشيخ الألباني:صحیح]