اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ” اس کی عبادت کی جگہوں کو شرک سے پاک رکھیں، وہاں کسی دوسرے کا نام نہ پکاریں، نہ کسی اور کو اللہ کی عبادت میں شریک کریں “۔
قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اپنے گرجوں اور کنیسوں میں جا کر اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے تو اس امت کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور امت بھی سب توحید والے رہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت کے نزول کے وقت صرف مسجد الاقصیٰ تھی اور مسجد الحرام۔
اعمش رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان بھی کی ہے کہ جنات نے حضور علیہ السلام سے اجازت چاہی کہ آپ کی مسجد میں اور انسانوں کے ساتھ نماز ادا کریں، گویا ان سے کہا جا رہا ہے کہ نماز پڑھو لیکن انسانوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تو دور دراز رہتے ہیں نمازوں میں آپ کی مسجد میں کیسے پہنچ سکیں گے؟ تو انہیں کہا جاتا ہے کہ مقصود نماز کا ادا کرنا اور صرف اللہ ہی کی عبادت بجا لانا ہے خواہ کہیں ہو۔“[تفسیر ابن جریر الطبری: 35128:مرسل]
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت عام ہے اس میں سبھی مساجد شامل ہیں۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اعضاء سجدہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی جن اعضاء پر تم سجدہ کرتے ہو وہ سب اللہ ہی کے ہیں پس تم پر ان اعضاء سے دوسرے کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے۔
صحیح حدیث میں ہے کہ مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم کیا گیا ہے، پیشانی اور ہاتھ کے اشارے سے ناک کو بھی اس میں شامل کر لیا اور دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پانچے ۔ [صحیح بخاری:812]
آیت «لَمَّا قَامَ» کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جنات نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تلاوت قرآن سنی تو اس طرح آگے بڑھ بڑھ کر عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ گویا ایک دوسرے کے سروں پر چڑھے چلے جاتے ہیں۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنات اپنی قوم سے کہہ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی اطاعت و چاہت کی حالت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو کھڑے ہوتے ہیں اور اصحاب اصحاب پیچھے ہوتے ہیں تو برابر اطاعت و اقتداء میں آخر تک مشغول رہتے ہیں گویا ایک حلقہ ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کا اعلان لوگوں میں کرتے ہیں تو کافر لوگ دانت چبا چبا کر الجھ جاتے ہیں، جنات و انسان مل جاتے ہیں کہ اس امر دین کو مٹا دیں اور اس کی روشنی کو چھپا لیں مگر اللہ کا ارادہ اس کے خلاف ہو چکا ہے۔