دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے، اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا، وہ گناہ، خوف، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے۔
کردم بن ابوسائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لیے باہر نکلا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو چکی تھی اور مکہ شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت پیغمبر ظاہر ہو چکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کر لے بھاگا، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا ”اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا“، ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے، تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں اتری کہ ” بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے “۔ [طبرانی کبیر:191/19،قال الشيخ زبیرعلی زئی:ضعیف]
ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کر لے گیا ہو اور چرواہے کی اس دہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ جنات کی پناہ میں آ جانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہو جائیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ ” اے جنو! جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا “۔