چار سے زائد نہیں، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی! ٭٭
دوسری حدیث ابوداؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے سیدنا عمیرہ اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا: ”ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو“[سنن ابوداود:2241/2242،قال الشيخ الألباني:صحیح] اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا
تیسری حدیث مسند شافعی میں ہے سیدنا نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو“ میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی [مسند شافعی:16/2:]
پس یہ حدیثیں سیدنا غیلان رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ امام بیہقی نے فرمایا۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو۔
جیسے اور جگہ ہے «وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ»[4-النساء:129] یعنی ” گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو “، ہاں یاد رہے کہ لونڈیوں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں۔
اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت «وَإِنْ خِفْتُمْ» » [9-التوبة:29] یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو۔
عربی شاعر کہتا ہے: «فما یدری الفقیر متی غناہ ... وما یدری الغنی متی یعیل» یعنی ”فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہو جائے گا ... اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا“
جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے تو عرب کہتے ہیں «عال الرجل» یعنی ”یہ شخص فقیر ہو گیا“ غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے۔
پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ، عرب میں کہا جاتا ہے «عال فی الحکم» جبکہ ظلم و جور کیا ہو، ابوطالب کے مشہور قصیدے میں ہے۔ «بمیزان قسط لا یخیس شعیرۃ» ... لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل» بہترین ترازو ضمیر ہے یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے۔
ابن جریر میں ہے کہ جب کوفیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ایک میں خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ «إِني لسْتُ بميزانٍ لا أَعُول» میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو [صحیح ابنvحبان:134/6]
ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے اسی طرح «لا تعولوا» کے یہی معنی ہیں یعنی تم ظلم نہ کرو۔ سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدہ عائشہ، رضی اللہ عنہما مجاہد، عکرمہ، حسن، ابو مالک، ابو زرین، نخعی، شعبی، ضحاک، عطاء خراسانی، قتادہ، سدی اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم [تفسیر ابن جریر الطبری:549/7-515] وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔ عکرمہ رحمہ اللہ نے بھی ابوطالب کا وہی شعر پیش کیا ہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشک مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال، طیب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو [تفسیر ابن جریر الطبری:553/7]
ابن ابی حاتم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہیئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت «فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا»[4-النساء:4] تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی۔
ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا (ابن ابی حاتم اور ابن جریر) اس حکم کو سن کر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہیئے؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہو جائیں [بیہقی:239/7:مرسل و ضعیف] (ابن ابی حاتم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ ”بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو“، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں“[بیہقی:239/7:منقطع و ضعیف] اس کے ایک راوی ابن بیلمانی ضعیف ہیں، پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔