نوح علیہ السلام نے اپنی گزشتہ شکایتوں کے ساتھ ہی جناب باری تعالیٰ میں اپنی قوم کے لوگوں کی اس روش کو بھی بیان کیا کہ ”میری پکار کو جو ان کے لیے سراسر نفع بخش تھی انہوں نے کان تک نہ لگایا ہاں اپنے مالداروں اور بےفکروں کی مان لی جو تیرے امر سے بالکل غافل تھے اور مال و اولاد کے پیچھے مست تھی، گو فی الواقع وہ مال و اولاد بھی ان کے لیے سراسر وبال جان تھی، کیونکہ ان کی وجہ سے وہ پھولتے تھے اور اللہ کو بھولتے تھے اور زیادہ نقصان میں اترتے جاتے تھے۔“
«وَلَدُهُ» کی دوسری قرأت «وَلَدَهُ» بھی ہے اور ان رئیسوں نے جو مال و جاہ والے تھے ان سے بڑی مکاری کی۔ «کُبَّارِ» اور «کِبَّار» دونوں معنی میں «کَِبْیر» کے ہیں یعنی بہت بڑا۔ قیامت کے دن بھی یہ لوگ یہی کہیں گے کہ «بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّـهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا»[34-سبأ:33] ” تم دن رات مکاری سے ہمیں کفر و شرک کا حکم کرتے رہے اور انہی بڑوں نے ان چھوٹوں سے کہا کہ اپنے ان بتوں کو جنہیں تم پوجتے رہے ہرگز نہ چھوڑنا۔ “
صحیح بخاری میں ہے کہ قوم نوح کے بتوں کو کفار عرب نے لے لیا دومتہ الجندل میں قبیلہ کلب ود کو پوجتے تھے، ہذیل قبیلہ سواع کا پرستار تھا اور قبیلہ مراد پھر قبیلہ بنو غطیف جو صرف کے رہنے والے تھے یہ شہر سبا بستی کے پاس ہے یغوث کی پوجا کرتا تھا، ہملان قبیلہ یعقوب کا پجاری تھا، آل ذی کلاع کا، قبیلہ حمیر نسر بت کا ماننے والا تھا، یہ سب بت دراصل قوم نوح کے صالح بزرگ اولیاء اللہ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالی کہ ان بزرگوں کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یادگار قائم کریں، چنانچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دیئے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو اس جگہ کی پرستش نہ ہوئی لیکن ان نشانات اور یادگار قائم کرنے والے لوگوں کو مر جانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد جو لوگ آئے جہالت کی وجہ سے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔ [صحیح بخاری:4920] عکرمہ رحمہ اللہ، ضحاک رحمہ اللہ، قتادہ رحمہ اللہ، ابن اسحاق رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔