اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کر لیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا۔
نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ ”دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو، گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو، جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ، میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔“ آیت «يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّـهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ»[71-نوح:4] میں لفظ «مِّنْ» یہاں زائد ہے، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ «مِّنْ» زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے «قَدْ كَانَ مِنْ مَّطَرٍ» میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں «عن» کے ہو بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ تو اسی کو پسند فرماتے ہیں
اور یہ قول بھی ہے کہ «مِّنْ» «إِنَّهَا لِلتَّبْعِيضِ أَيْ يَغْفِر لَكُمْ الذُّنُوب الْعِظَام الَّتِي وَعَدَكُمْ عَلَى اِرْتِكَابكُمْ إِيَّاهَا الِانْتِقَام» کے لیے ہے یعنی ” تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا۔ “ یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا۔
اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے۔[سلسلة احادیث صحیحه البانی:1908]
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لیے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے۔“