تفسير ابن كثير



ایمان والوں اور مجاہدین کے قابل رشک اعزاز ٭٭

اہل کتاب کے اس فرقے کی تعریف کرتا ہے جو پورے ایمان والا ہے قرآن کریم کو بھی مانتا ہے اور اپنے نبی کی کتاب پر بھی ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا ڈر دل میں رکھ کر اللہ تعالیٰ فرمانوں کی بجا آوری میں نہایت تندہی کے ساتھ مشغول ہے رب کے سامنے عاجزی اور گریہ وزاری کرتا رہتا ہے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے جو پاک اوصاف اور صاف نشانیاں ان کی کتابوں میں ہیں اسے دنیا کے بدلے چھپاتا نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مان لینے کی رغبت دلاتا ہے۔ ایسی جماعت اللہ تعالیٰ کے پاس اجر پائے گی خواہ وہ یہودیوں کی ہو خواہ نصرانیوں کی

سورۃ قصص میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے آیت «الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ هُم بِهِ يُؤْمِنُونَ وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ» [28-القصص:52] ‏‏‏‏ جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دے رکھی ہے وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور جب یہ کتاب ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے تو صاف کہ دیتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ برحق کتاب ہمارے رب کی ہے ہم تو پہلے سے ہی اسے مانتے تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا

اور جگہ ہے «الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ» [2-البقرة:121] ‏‏‏‏ جنہیں ہم نے کتاب دی اور جسے وہ اسے صحیح طور پر پڑھتے ہیں وہ تو اس قرآن پر بھی فوراً ایمان لاتے ہیں

اور جگہ ارشاد ہے آیت «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ» [7-الأعراف:159] ‏‏‏‏ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے بھی ایک جماعت حق کی ہدایت کرنے والی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی ہے۔

دوسرے مقام پر بیان ہے آیت «لَيْسُوْا سَوَاءً مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ» [3-آل عمران:113] ‏‏‏‏، یعنی اہل کتاب سب یکساں نہیں ان میں ایک جماعت راتوں کے وقت بھی اللہ کی کتاب پڑھنے والی ہے اور سجدے کرنے والی ہے۔

اور جگہ ہے «قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ۩» [17-الإسراء:109] ‏‏‏‏ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم کہو کہ لوگوں تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں پہلے سے علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اس کلام مجید کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اپنے چہروں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے یقیناً اس کا وعدہ سچا ہے اور سچا ہو کر رہنے والا ہے یہ لوگ روتے ہوئے منہ کے بل گرتے ہیں اور خشوع و خضوع میں بڑھ جاتے ہیں،

یہ صفتیں یہودیوں میں پائی گئیں گو بہت کم لوگ ایسے تھے مثلاً سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور آپ ہی جیسے اور با ایمان یہودی علماء لیکن ان کی گنتی دس تک نہیں پہنچتی ہاں نصرانی اکثر ہدایت پر آگئے اور حق کے فرمانبردار ہوگئے

جیسے اور جگہ ہے آیت «لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا» سے «جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا» [5-المائدة: 85-82] ‏‏‏‏ آخر آیت تک، مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے عداوت اور دشمنی رکھنے میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے یہود ہیں اور مشرک۔ اور ایمان والوں سے محبت رکھنے میں پیش پیش نصرانی ہیں۔

اب فرماتا ہے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم کے مستحق ہیں، حدیث میں یہ بھی آ چکا ہے کہ سیدنا جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے جب سورۃ مریم کی تلاوت شاہ نجاشی کے دربار میں بادشاہ اراکین سلطت اور علماء نصاریٰ کے سامنے کی اور اس میں آپ پر رقت طاری ہوئی تو سب حاضرین دربار مع بادشاہ رو دیئے اور اس قدر متاثر ہوئے کہ روتے روتے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں، [سیرۃ ابن ھشام:357/1:صحیح] ‏‏‏‏

صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ نجاشی کے انتقال کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دی اور فرمایا کہ تمہارا بھائی حبشہ میں انتقال کر گیا ہے اور اس کے جنازے کی نماز ادا کرو اور میدان میں جا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفیں مرتب کر کے آپ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی۔ [صحیح بخاری:1317] ‏‏‏‏

ابن مردویہ میں ہے کہ جب نجاشی فوت ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو تو بعض لوگوں نے کہا دیکھئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس نصرانی کیلئے استغفار کرنے کا حکم دیتے ہیں جو حبشہ میں مرا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [طبرانی اوسط:2677:حسن] ‏‏‏‏ گویا اس کے مسلمان ہونے شہادت قرآن کریم نے دی

گویا اس کے مسلمان ہونے کی شہادت قرآن کریم نے دی۔ ابن جریر میں ہے کہ ان کی موت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ تمہارا بھائی اصحمہ انتقال کر گیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور جس طرح جنازے کی نماز پڑھاتے تھے اسی طرح چار تکبیروں سے نماز جنازہ پڑھائی اس پر منافقوں نے وہ اعتراض کیا اور یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:8376] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نجاشی کے انتقال کے بعد ہم یہی سنتے رہے کہ ان کی قبر پر نور دیکھا جاتا ہے، [سنن ابوداود:2523،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

مستدرک حاکم میں ہے کہ نجاشی کا ایک دشمن اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تو مہاجرین نے کہا کہ آپ اس سے مقابلہ کرنے کیلئے چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں آپ ہماری بہادری کے جوہر دیکھ لیں گے اور جو حسن سلوک آپ نے ہمارے ساتھ کیا ہے اس کا بدلہ بھی اتر جائے گا لیکن نجاشی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کی امداد کے ساتھ بچاؤ کرنے سے اللہ کی امداد کا بچاؤ بہتر ہے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [مستدرک حاکم:300/2:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اہل کتاب کے مسلمان لوگ ہیں، [تفسیر ابن جریر الطبری:499/7] ‏‏‏‏ سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے اسلام کو پہچانتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا بھی شرف انہیں حاصل ہوا تو انہیں اجر بھی دوہرا ملا ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے ایمان کا دوسرا اجر آپ پر ایمان لانے کا، بخاری مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے جن میں سے ایک اہل کتاب کا وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور مجھ پر ایمان لایا اور باقی دو کو بھی ذکر کیا، [صحیح بخاری:97] ‏‏‏‏

اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر نہیں بیچتے یعنی اپنے پاس علمی باتوں کو چھپاتے نہیں جیسے کہ ان میں سے ایک رذیل جماعت کا شیوہ تھا بلکہ یہ لوگ تو اسے پھیلاتے اور خوب ظاہر کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے یعنی جلد سمیٹنے اور گھیرنے اور شمار کرنے والا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسلام جیسے میری پسندیدہ دین پر جمے رہو شدت اور نرمی کے وقت مصیبت اور راحت کے وقت غرض کسی حال میں بھی اسے نہ چھوڑو یہاں تک کہ دم نکلے تو اسی پر نکلے اور اپنے ان دشمنوں سے بھی صبر سے کام لو جو اپنے دین کو چھپاتے ہیں [تفسیر ابن جریر الطبری:502/7] ‏‏‏‏

امام حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ علماء سلف نے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔

«مرابطۃ» مرابطہٰ کہتے ہیں عبادت کی جگہ میں ہمیشگی کرنے کو اور ثابت قدمی سے جم جانے کو اور کہا گیا ہے ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کو، یہی قول ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اور محمد بن کعب قرضی رحمہ اللہ کا۔ صحیح مسلم شریف اور نسائی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ کس چیز سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور درجوں کو بڑھاتا ہے، تکلیف ہوتے ہوتے بھی کامل وضو کرنا، دور سے چل کر مسجدوں میں آنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے یہی مرابط ہے یہی اللہ تعالیٰ کی راہ کی مستعدی ہے، [صحیح مسلم:251] ‏‏‏‏

ابن مردویہ میں ہے کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے میرے بھتیجے جانتے ہو اس آیت کا شان نزول کیا ہے؟ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں آپ نے فرمایا سنو اس وقت کوئی غزوہ نہ تھا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو مسجدوں کو آباد رکھتی تھی اور نمازوں کو ٹھیک وقت پر ادا کرتے تھے پھر اللہ کا ذکر کرتے تھے انہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم پانچوں نمازوں پر جمے رہو اور اپنے نفس کو اور اپنی خواہش کو روکے رکھو اور مسجدوں میں بسیرا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یہی اعمال موجب ایمان ہیں، [مستدرک حاکم:301/2] ‏‏‏‏ ابن جریر کی حدیث میں ہے کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جو گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں ناپسندیدگی کے وقت کامل وضو کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا تمہاری مستعدی اسی میں ہونی چاہیئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:8395:ضعیف] ‏‏‏‏

اور حدیث میں زیادہ قدم رکھ کر چل کر مسجد میں آنا بھی ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:8396:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ گناہوں کی معافی کے ساتھ ہی درجے بھی ان اعمال سے بڑھتے رہتے ہیں اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔ [الدار المنشور للسیوطی:201/2:ضعیف] ‏‏‏‏

لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہاں «رَابِطُوا» سے مطلب انتظار نماز ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:8394:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یہ فرمان ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے واللہ اعلم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «رَابِطُوا» سے مراد دشمن سے جہاد کرنا، اسلامی ملک کی حدود کی نگہبانی کرنا اور دشمنوں کو اسلامی شہروں میں نہ گھسنے دینا ہے اس کی ترغیب میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں اور اس پر بھی بڑے ثواب کا وعدہ ہے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے ایک دن کی یہ تیاری ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے افضل ہے، [صحیح بخاری:2794] ‏‏‏‏ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ایک دن رات کی جہاد کی تیاری ایک ماہ کے کامل روزوں اور ایک ماہ کی تمام شب بیداری سے افضل ہے اور اسی تیاری کی حالت میں موت آ جائے تو جتنے اعمال صالحہ کرتا تھا سب کا ثواب پہنچتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس سے روزی پہنچائی جاتی ہے اور فتنوں سے امن پاتا ہے، [صحیح مسلم:1913] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے ہر مرنے والے کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ کی تیاری میں ہو اور اسی حالت میں مر جائے اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور اسے فتنہ قبر سے نجات ملتی ہے [سنن ابوداود:2500،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابن ماجہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن اسے امن ملے گا، [سنن ابن ماجہ:2767،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ مسند کی اور حدیث میں ہے اسے صبح شام جنت سے روزی پہنچائی جاتی ہے اور قیامت تک اس کے مرابط کا اجر ملتا رہتا ہے، [مسند احمد:404/2:حسن بالشواھد] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے جو شخص مسلمانوں کی سرحد کے کسی کنارے پر تین دن تیاری میں گزارے اسے سال بھر تک کی اور جگہ کی اس اس تیاری کا اجر ملتا ہے۔ [مسند احمد:362/6:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏

امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی بات سناتا ہوں میں نے اب تک ایک خاص خیال سے اسے نہیں سنایا آپ نے فرمایا ہے اللہ جل شانہ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ ایک ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے جو تمام راتیں قیام میں اور تمام دن صیام میں گزارے جائیں۔ [مسند احمد:61/1:حسن بالشواھد] ‏‏‏‏

دوسری روایت میں اس حدیث کو اب تک بیان نہ کرنے کی وجہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کیلئے کہیں تم سب مدینہ چھوڑ کر میدان جنگ میں نہ چل دو اب میں سنا دیتا ہوں ہر شخص کو اختیار ہے کہ جو بات اپنے لیے پسند کرتا ہے اس کا پابند ہو جائے۔ [سنن ابن ماجہ:2766،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پہنچا دی لوگوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اے جناب باری تعالیٰ تو گواہ رہ، [مسند احمد:62/1:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏

ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا شرحبیل بن سمط محافظت سرحد میں تھے اور زمانہ زیادہ گزر جانے کے بعد کچھ تنگ دل ہو رہے تھے کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا آؤ میں تجھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناؤں آپ نے فرمایا ہے ایک دن سرحد کی حفاظت ایک مہینہ کے صیام و قیام سے افضل ہے اور جو اسی حالت میں مر جائے وہ فتنہ قبر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال قیامت تک جاری رہتے ہیں۔ [سنن ترمذي:1665،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابن ماجہ میں ہے کہ ایک رات اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دینا تاکہ مسلمان امن سے رہیں ہاں نیت نیک ہو گو وہ رات رمضان کی نہ ہو ایک سو سال کی عبادت سے افضل ہے جس کے دن روزے میں اور جس کی راتیں تہجد میں گزری ہوں اور ایک دن کی رب العزت کی راہ میں تیاری تاکہ مسلمان باحفاظت رہیں طلبِ ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے بغیر اللہ کے نزدیک ایک ہزار سال کے روزوں اور تہجد سے افضل ہے،اب اگر یہ غازی سلامتی اور زندگی کے ساتھ اپنے والوں میں آگیا تو ایک ہزار سال کی پرائیاں اسکے نامہ اعمال میں نہیں لکھی جائیں گی اور نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس مرابط کا اجر قیامت تک اسے ملتا رہے گا۔ [سنن ابن ماجہ:2768،قال الشيخ الألباني:موضوع] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے اس کے ایک راوی عمرو بن صبح متہم ہیں،

ابن ماجہ کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ ایک رات کی مسلم لشکر کی چوکیداری ایک ہزار سال کی راتوں کے قیام اور دنوں کے صیام سے افضل ہے ہر سال کے تین سو ساٹھ دن اور ہر دن مثل ایک ہزار سال کے۔ [سنن ابن ماجہ:2770،قال الشيخ الألباني:موضوع] ‏‏‏‏

اس کے راوی سعید بن خالد ابوزرعہ رحمہ اللہ وغیرہ ہیں ائمہ نے اسے ضعیف کہا ہے بلکہ امام حاکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کی روایت سے موضع حدیثیں بھی ہیں، ایک منقطع حدیث میں ہے لشکر اسلام کے چوکیدار پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہو۔ [سنن ابن ماجہ:2769،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ [ ابن ماجہ ] ‏‏‏‏

سیدنا سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حنین والے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے شام کی نماز میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اتنے میں ایک گھوڑا سوار آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آگے نکل گیا تھا اور فلاں پہاڑ پر چڑھ کر میں نے نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ میدان میں جمع ہو گئے ہیں یہاں تک کہ ان کی اونٹنیاں، بکریاں، عورتیں اور بچے بھی ساتھ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا ان شاءاللہ یہ سب کل مسلمانوں کی مال غنیمت ہو گا پھر فرمایا بتاؤ آج کی رات پہرہ کون دے گا؟ سیدنا انس بن ابو مرثد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں آپ نے فرمایا جاؤ سواری لے کر آؤ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھاٹی پر چلے جاؤ اور اس پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ جاؤ خبردار! تمہاری طرف سے ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ صبح تک نہ ہو، صبح جس وقت نماز کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے دو سنتیں ادا کیں اور لوگوں سے پوچھا کہو تمہارے پہرے دار سوار کی تو کوئی آہٹ نہیں سنی لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اب تکبیر کہی گئی اور آپ نے نماز شروع کی آپ کا خیال اسی گھاٹی کی طرف تھا نماز سے سلام پھیرتے ہی آپ نے فرمایا خوش ہو جاؤ تمہارا گھوڑے سوار آ رہا ہے ہم نے جھاڑیوں میں جھانک کر دیکھا تو تھوڑی دیر میں ہمیں بھی دکھائی دے گئے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس وادی کے اوپر کے حصے پر پہنچ گیا اور ارشاد کے مطابق وہیں رات گزاری صبح میں نے دوسری گھاٹی بھی دیکھ ڈالی لیکن وہاں بھی کوئی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا رات کو وہاں سے تم نیچے بھی اترے تھے؟ جواب دیا نہیں صرف نماز کیلئے اور قضائے حاجت کیلئے تو نیچے اترا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے لیے جنت واجب کر لی اب تم اس کے بعد کوئی عمل نہ کرو تو بھی تم پر کوئی حرج نہیں، [سنن ابوداود:2501،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ [ ابوداؤد و نسائی ] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے ایک غزوہ کے موقعہ پر ایک رات کو ہم بلند جگہ پر تھے اور سخت سردی تھی یہاں تک کہ لوگ زمین میں گڑھے کھود کھود کر اپنے اوپر ڈھالیں لے لے کر پڑے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت آواز دی کہ کوئی ہے جو آج کی رات ہماری چوکیداری کرے اور مجھ سے بہترین دعا لے تو ایک انصاری کھڑا ہو گیا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تیار ہوں آپ نے اسے پاس بلا کر نام دریافت کر کے اس کے لیے بہت دعا کی ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ یہ دعائیں سن کر آگے بڑھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی پہرہ دوں گا آپ نے مجھے بھی پاس بلا لیا اور نام پوچھ کر میرے لیے بھی دعائیں کیں لیکن اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ دعا کم تھی پھر آپ نے فرمایا اس آنکھ پر جہنم کی آنچ حرام ہے جو اللہ کے ڈر سے روئے اور اس آنکھ پر بھی جو راہ اللہ میں شب بیداری کرے، [مسند احمد:134/4:حسن لغیرہ] ‏‏‏‏

مسند حمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص مسلمانوں کے پیچھے سے ان کا پہرہ دے اپنی خوشی سے بغیر سلطان کی اجرت و تنخواہ کے وہ اپنی آنکھوں سے بھی جہنم کی آگ کو نہ دیکھے گا مگر صرف قسم پوری ہونے کے لیے جو اس آیت میں ہے «وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا» » ‏‏‏‏ [19-مريم:70] ‏‏‏‏ یعنی تم سب اس پر وارد ہو گئے۔ [مسند احمد:437/3:ضعیف] ‏‏‏‏

صحیح بخاری میں ہے دینار کا بندہ برباد ہوا اور کپڑوں کا بندہ اگر مال دیا جائے تو خوش ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناخوش ہے، یہ بھی برباد ہوا اور خراب ہوا اگر اسے کانٹا چبھ جائے تو نکالنے کی کوشش بھی نہ کی جائے خوش نصیب ہوا اور پھلا خوب پھولا وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے بکھرے ہوئے بال ہیں اور گرد آلود قدم ہیں اگر چوکیداری پر مقرر کر دیا گیا ہے تو چوکیداری کر رہا ہے اور اگر لشکر کے اگلے حصے میں مقرر کر دیا گیا ہے تو وہیں خوش ہے لوگوں کی نظروں میں اتنا گرا پڑا ہے کہ اگر کہیں جانا چاہے تو اجازت نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ ہو، [صحیح بخاری:2887] ‏‏‏‏

الحمداللہ اس آیت کے متعلق خاصی حدیثیں بیان ہو گئیں اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم پر ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور شکر گزاری سے رہتی دنیا تک فارغ نہیں ہو سکتے۔

تفسیر ابن جریر میں ہے کہ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو میدان جنگ سے ایک خط لکھا اور اس میں رومیوں کی فوج کی کثرت، ان کی آلات حرب کی حالت اور ان کی تیاریوں کی کیفیتیں بیان کی اور لکھا کہ سخت خطرہ کا موقعہ ہے، یہاں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا جواب گیا جس میں حمد و ثنا کے بعد تحریر تھا کہ کبھی کبھی مومن بندوں پر سختیاں بھی آ جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بعد آسانیاں بھیج دیتا ہے۔ سنو! ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آ سکتی سنو پروردگار عالم کا فرمان ہے «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا» [3-آل عمران:200] ‏‏‏‏ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے سن ١٧٠ یا ١٧٧ھ میں شہر طرسوس میں محمد بن ابراہیم بن سکینہ رحمہ اللہ کو جبکہ وہ ان کو الوداع کرنے آئے تھے اور یہ جہاد کو جا رہے تھے یہ اشعار لکھوا کر سیدنا فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ کو بھجوائے۔

«یا عابد الحرمین لو ابصرتنا» «لعلمت انک فی العبادۃ تلعب» «من کان یخضب خدہ بلموعہ» «فنحورنا بلمائنا تتخضب» «من کان یتعب خلیہ فی باطل» «فنخیولنا یوم الصبیحتہ تتعب» «ریح العبیر لکم ونحن عبیرنا» «رھج السنابک والغبار الاطیب» «ولقد اتانا من مقال نبینا» «قول صحیح صادق لا یکذب» «لا یستوی غبار خیل اللہ فی» «انف امری ودخان نار تلھب» «ھذا کتاب اللہ ینطق بیننا» «لیس الشھید بمیت لا یکذب»

اے مکہ مدینہ میں رہ کر عبادت کرنے والے اگر تو ہم مجاہدین کو دیکھ لیتا تو بالیقین تجھے معلوم ہو جاتا کہ تیری عبادت تو ایک کھیل ہے، ایک وہ شخص ہے جس کے آنسو اس کے رخساروں کو تر کرتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو اپنی گردن اللہ کی راہ میں کٹوا کر اپنے خون میں آپ نہا لیتے ہیں۔ ایک وہ شخص ہے جس کا گھوڑا باطل اور بے کار کام میں تھک جاتا ہے اور ہمارے گھوڑے حملے اور لڑائی کے دن ہی تھکتے ہیں۔ اگر کی خوشبوئیں تمہارے لیے ہیں اور ہمارے لیے اگر کی خوشبو گھوڑوں کے ٹاپوں کی خاک اور پاکیزہ گرد و غبار ہے۔ یقین مانو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچ چکی ہے جو سراسر راستی اور درستی والی بالکل سچی ہے کہ جس کسی کے ناک میں اس اللہ تعالیٰ کے لشکر کی گرد بھی پہنچ گئی اس کے ناک میں شعلے مارنے والی جہنم کی آگ کا دھواں بھی نہ جائے گا اور لو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب جو ہم میں موجود ہے اور صاف کہہ رہی ہے اور سچ کہہ رہی ہے کہ شہید مردہ نہیں۔

محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب میں نے مسجد الحرام میں پہنچ کر سیدنا فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کو یہ اشعار دکھائے تو آپ پڑھ کر زار زار روئے اور فرمایا ابوعبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر ہوں صحیح اور سچ فرمایا اور مجھے نصیحت کی اور میری بے حد خیر خواہی کی، پھر مجھ سے فرمایا کیا تم حدیث لکھتے ہو میں نے کہا جی ہاں کہا اچھا تم جو یہ نصحیت نامہ میرے پاس لائے اس کے بدلے میں تمہیں ایک حدیث لکھواتا ہوں وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائے جس سے میں مجاہد کا ثواب پالوں؟ آپ نے فرمایا کیا تجھ میں یہ طاقت ہے کہ نماز ہی پڑھتا رہے اور تھکے نہیں اور روزے رکھتا چلا جائے اور کبھی بے روزہ نہ رہے اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت کہاں؟ میں اس سے بہت ہی ضعیف ہوں آپ نے فرمایا اگر تجھ میں اتنی طاقت ہوتی اور تو ایسا کر بھی سکتا تو بھی مجاہد فی سبیل اللہ کے درجے کو نہ پہنچ سکتا، تو یہ بھی جانتا ہے کہ مجاہد کے گھوڑے کی رسی دراز ہو جائے اور وہ ادھر ادھر چر جائے تو اس پر بھی مجاہد کو نیکیاں ملتی ہیں۔ [مسند احمد:236/5:صحیح] ‏‏‏‏

اس کے بعد اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر حال، میں ہر وقت، ہر معاملہ میں اللہ کا خوف کیا کرو۔ جناب رسول اکرم محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا اے معاذ! جہاں بھی ہو اللہ کا خوف دل میں رکھ اور اگر تجھ سے کوئی برائی ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی بھی کر لے تاکہ وہ برائی مٹ جائے اور لوگوں سے خلق و مروت کے ساتھ پیش آیا کر۔ [سنن ترمذي:1987،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ چاروں کام کر لینے سے تم اپنے مقصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاؤ گے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات پالو گے۔ سیدنا محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے تم میرا لحاظ رکھو میرے خوف سے کانپتے رہو مجھ سے ڈرتے رہو میرے اور اپنے معاملہ میں متقی رہو تو کل جبکہ تم مجھ سے ملو گے نجات یافتہ اور بامراد ہو جاؤ گے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:510/7] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.