«بِعَذَابٍ» میں جو «ب» ہے وہ بتا رہا ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے «وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ» [22-الحج:47] یعنی ” یہ عذاب مانگنے میں عجلت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا “، یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا۔
نسائی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد ہے کہ ”کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے“، یعنی آخرت میں۔
ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں «اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ» [8-الإنفال:32] یعنی ” الٰہی اگر یہ تیرے پاس سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمارے پاس کوئی درد ناک عذاب لا “۔
ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ”اس سے مراد وہ عذاب کی وادی ہے جو قیامت کے دن عذابوں سے بہہ نکلے گی“، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مطلب سے بہت دور ہے صحیح قول پہلا ہی ہے جس پر روش کلام کی دلالت ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” وہ عذاب کافروں کے لیے تیار ہے اور ان پر آ پڑنے والا ہے جب آ جائے گا تو اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے “۔