یہاں بیان ہو رہا ہے کہ جو خوش نصیب لوگ قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ سعادت مند حضرات بے حد خوش ہوں گے اور جوش مسرت میں بےساختہ ہر ایک سے کہتے پھریں گے کہ میرا نامہ اعمال تو پڑھو اور یہ اس لیے کہ جو گناہ بتقاضائے بشریت ان سے ہو گئے وہ بھی ان کی توبہ سے نامہ اعمال میں سے مٹا دیئے گئے ہیں اور نہ صرف مٹا دیئے گئے ہیں بلکہ ان کے بجائے نیکیاں لکھ دی گئی ہیں۔ پس یہ سراسر نیکیوں کا نامہ اعمال ایک ایک کو پورے سرور اور سچی خوشی سے دکھاتے پھرتے ہیں۔
عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ھَا» کے بعد لفظ «ؤُمُ» زیادہ ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ «هَاؤُمُ» معنی میں «ھَاکُمْ» کے ہے۔ ابوعثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چپکے سے حجاب میں مومن کو اس کا نامہ اعمال دیا جاتا ہے جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں یہ اسے پڑھتا ہے اور ہر ایک گناہ پر اس کے ہوش اڑ اڑ جاتے ہیں چہرے کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اتنے میں اب اس کی نگاہ اپنی نیکیوں پر پڑتی ہے جب انہیں پڑھنے لگتا ہے تب ذرا چین پڑتا ہے ہوش و حواس درست ہوتے ہیں اور چہرہ کھل جاتا ہے پھر نظریں جما کر پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی برائیاں بھی بھلائیوں سے بدل دی گئی ہیں ہر برائی کی جگہ بھلائی لکھی ہوئی ہے۔ اب تو اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور خوشی خوشی نکل کھڑا ہوتا ہے اور جو ملتا ہے اس سے کہتا ہے ذرا میرا نامہ اعمال تو پڑھنا۔
عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ جنہیں فرشتوں نے ان کی شہادت کے بعد غسل دیا تھا ان کے لڑکے عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو قیامت والے دن اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور اس کی برائیاں اس کے نامہ اعمال کی پشت پر لکھی ہوئی ہوں گی جو اس پر ظاہر کی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ” بتا کیا تو نے یہ اعمال کئے ہیں؟ “ وہ اقرار کرے گا کہ ہاں بیشک اللہ یہ برائیاں مجھ سے ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” دیکھ میں نے دنیا میں بھی تجھے رسوا نہیں کیا، نہ فضیحت کیا، اب یہاں بھی میں تجھ سے درگزر کرتا ہوں اور تیرے تمام گناہوں کو معاف کرتا ہوں۔ “ جب یہ اس سے فارغ ہو گا تب اپنا نامہ اعمال لے کر خوشی سے ایک ایک کو دکھاتا پھرے گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما والی صحیح حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کو اپنے پاس بلائے گا اور اس سے اس کے گناہوں کی بابت پوچھے گا کہ فلاں گناہ کیا ہے؟ فلاں گناہ کیا؟ یہ اقرار کرے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ اب ہلاک ہوا اس وقت جناب باری تعالیٰ فرمائے گا ” اے میرے بندے دنیا میں میں نے تیری ان برائیوں پر پردہ ڈال رکھا تھا اب آج تجھے کیا رسوا کروں جا میں نے تجھے بخشا “، پھر اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی ہیں لیکن کافروں اور منافقوں کے بارے میں تو گواہ پکار اٹھتے ہیں کہ «هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ»[11-ھود:18] ” یہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کے بارے میں جھوٹ کہا “ لوگو سنو! ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے“[صحیح بخاری:2441] ۔
پھر فرماتا ہے کہ ” یہ داہنے ہاتھ کے نامہ اعمال والا کہتا ہے کہ مجھے تو دنیا میں ہی یقین کامل تھا کہ یہ حساب کا دن قطعاً آنے والا ہے “،
جیسے اور جگہ فرمایا «الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ»[2-البقرۃ:46] یعنی ” انہیں یقین تھا کہ یہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں “۔
فرمایا ” ان کی جزا یہ ہے کہ یہ پسندیدہ اور دل خوش کن زندگی پائیں گے اور بلند و بالا بہشت میں رہیں گے، جس کے محلات اونچے اونچے ہوں گے جن میں حوریں قبول صورت اور نیک سیرت ہوں گی جو گھر نعمتوں کے بھرپور خزانے ہوں گے اور یہ تمام نعمتیں نہ ٹلنے والی، نہ ختم ہونے والی بلکہ کمی سے بھی محفوظ ہوں گی “۔
ایک شیخ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ ! کیا اونچے نیچے مرتبے والے جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں بلند مرتبہ لوگ کم مرتبہ لوگوں کے پاس ملاقات کے لیے اتر آئیں گے اور خوب محبت و اخلاص سے سلام مصافحے اور آؤ بھگت ہو گی ہاں البتہ نیچے والے بہ سبب اپنے اعمال کی کمی کے اوپر نہ چڑھیں گے“۔ [المیزان:3298:ضعیف] ۔
ایک اور صحیح حدیث میں ہے جنت میں ایک سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ۔ [صحیح بخاری:2790]
پھر فرماتا ہے ” اس کے پھل نیچے نیچے ہوں گے “، براء بن عازب وغیرہ فرماتے ہیں ”اس قدر جھکے ہوئے ہوں گے کہ جنتی اپنے چھپر کھٹ پر لیٹے ہی لیٹے ان میوؤں کو توڑ لیا کریں گے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”ہر جنتی کو اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا پروانہ ملے گا جس میں لکھا ہوا ہو گا «بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَن الرَّحِيم هَذَا كِتَاب مِنْ اللَّه لِفُلَانِ بْن فُلَان أَدْخِلُوهُ جَنَّة عَالِيَة قُطُوفهَا دَانِيَة» یعنی اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع یہ پروانہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں شخص کے لیے جو فلاں کا بیٹا ہے اسے بلند و بالا جھکی ہوئی شاخوں اور لدے پھندے ہوئے خوشوں والی خوشگوار جنت میں جانے دو“۔ [طبرانی کبیر:6191:ضعیف]
بعض روایتوں میں ہے یہ پروانہ پل صراط پر حوالے کر دیا جائے گا۔ [العلل المتناهیه لا ابن جوزی:1548:ضعیف]
پھر فرمایا ” انہیں بطور احسان اور مزید لطف و کرم کے زبانی بھی کھانے پینے کی رخصت مرحمت ہو گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہے “۔
اعمال کا بدلہ کہنا صرف بطور لطف کے ہے ورنہ صحیح حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”عمل کرتے جاؤ سیدھے اور قریب قریب رہو اور جان رکھو کہ صرف اعمال جنت میں لے جانے کے لیے کافی نہیں۔“، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کے اعمال بھی نہیں؟ فرمایا: ”نہ میرے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت شامل حال ہو“۔ [صحیح بخاری:6467]