تفسير ابن كثير



باب

یہ آندھیاں جو خیر و برکت سے خالی تھیں اور فرشتوں کے ہاتھوں سے نکلتی تھیں برابر پے درپے لگاتار سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہیں، ان دنوں میں ان کے لیے سوائے نحوست و بربادی کے اور کوئی بھلائی نہ تھی اور جیسے اور جگہ ہے «فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ» [41-فصلت:16] ‏‏‏‏

ربیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن سے یہ شروع ہوئی تھیں۔ بعض کہتے ہیں بدھ کے دن۔ ان ہواؤں کو عرب «اعجاز» اس لیے بھی کہتے ہیں کہ قرآن نے فرمایا ہے ” قوم عاد کی حالت «اعجاز» یعنی کھجوروں کے کھوکھلے تنوں جیسی ہو گئی “، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً یہ ہوائیں جاڑوں کے آخر میں چلا کرتی ہیں اور عجز کہتے ہیں آخر کو، اور یہ وجہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قوم عاد کی ایک بڑھیا ایک غار میں گھس گئی تھی جو ان ہواؤں سے آٹھویں روز وہیں تباہ ہو گئی اور بڑھیا کو عربی میں «عجوز» کہتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

«خَاوِيَةٍ» کے معنی ہیں خراب، گلا، سڑا، کھوکھلا، مطلب یہ ہے کہ ہواؤں نے انہیں اٹھا اٹھا کر الٹا ان کے سر پھٹ گئے سروں کا چورا چورا ہو گیا اور باقی جسم ایسا رہ گیا جیسے کھجور کے درختوں کا پتوں والا سرا کاٹ کر صرف تنا رہنے دیا ہو۔

بخاری مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: صبا کے ساتھ میری مدد کی گئی یعنی مشرقی ہوا کے ساتھ اور عادی ہلاک کئے گئے دبور سے یعنی مغربی ہوا سے۔ [صحیح بخاری:1035] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: عادیوں کو ہلاک کرنے کے لیے ہواؤں کے خزانے میں سے صرف انگوٹھی کے برابر جگہ کشادہ کی گئی تھی جس سے ہوائیں نکلیں اور پہلے وہ گاؤں اور دیہات والوں پر آئی ان تمام مردوں عورتوں کو چھوٹے بڑوں کو ان کے مالوں اور جانوروں سمیت لے کر آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دیا، شہریوں کو بوجہ بہت بلندی اور کافی اونچائی کے یہ معلوم ہونے لگا کہ یہ سیاہ رنگ بادل چڑھا ہوا ہے خوش ہونے لگے کہ گرمی کے باعث جو ہماری بری حالت ہو رہی ہے اب پانی برس جائے گا اتنے میں ہواؤں کو حکم ہوا اور اس نے ان تمام کو ان شہریوں پر پھینک دیا یہ اور وہ سب ہلاک ہو گئے۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس ہوا کے پر اور دم تھی۔

پھر فرماتا ہے ” بتاؤ کہ ان میں سے یا ان کی نسل میں سے کسی ایک کا نشان بھی تم دیکھ رہے ہو؟ “ یعنی سب کے سب تباو و برباد کر دیئے گئے کوئی نام لینے والا پانی دینے والا بھی باقی نہ رہا۔

پھر فرمایا ” فرعون اور اس سے اگلے خطاکار، اور رسولوں کے نافرمانوں کا یہی انجام ہوا “۔ «قَبْلَهُ» کی دوسری قرأت «قِبْلَهُ» بھی ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ فرعون اور اس کے پاس اور ساتھ کے لوگ یعنی فرعونی، قبطی، کفار۔ «مُؤْتَفِكَاتُ» سے مراد بھی پیغمبروں کی جھٹلانے والی اگلی امتیں ہیں، «خَاطِئَةِ» سے مطلب معصیت اور خطائیں ہیں۔ پس فرمایا ” ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے زمانے کے رسول کی تکذیب کی۔ “

جیسے اور جگہ ہے «كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ» [50-ق:14] ‏‏‏‏ یعنی ” ان سب نے رسولوں کی تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہوئے۔ “

اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک پیغمبر کا انکار گویا تمام انبیاء کا علیہ السلام انکار ہے جیسے قرآن نے فرمایا «كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ» [26-الشعراء:105] ‏‏‏‏

اور فرمایا «كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ» [26-الشعراء:123] ‏‏‏‏

اور فرمایا «كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ» [26-الشعراء:141] ‏‏‏‏ یعنی قوم نوح نے عادیوں نے ثمودیوں نے رسولوں کو جھٹلایا، حالانکہ سب کے پاس یعنی ہر ہر امت کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا، یہی مطلب یہاں بھی ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامبر کی نافرمانی کی، پس اللہ نے انہیں سخت تر مہلک بڑی درد ناک المناک پکڑ میں پکڑ لیا۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.