«حَاقَّه» قیامت کا ایک نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ وعدے وعید کی عملی تعبیر اور حقیقت کا دن وہی ہے، اسی لیے اس دن کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے فرمایا: ” تم اس «حاقہ» کی صحیح کیفیت سے بے خبر ہو “، پھر ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن لوگوں نے اسے جھٹلایا اور خمیازہ اٹھایا تھا تو فرمایا: ” ثمودیوں کو دیکھو ایک طرف سے فرشتے کے دہاڑنے اور کلیجوں کو پاش پاش کر دینے والی آواز آتی ہے تو دوسری جانب سے زمین میں غضبناک بھونچال آتا ہے اور سب تہ و بالا ہو جاتے ہیں۔ “
پس بقول قتادہ رحمہ اللہ «طَّاغِيَةِ» کے معنی چنگھاڑ کے ہیں، اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسے مراد گناہ ہیں یعنی وہ اپنے گناہوں کے باعث برباد کر دیئے گئے۔
سیدنا ربیع بن انس اور سیدنا ابن زید رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ اس سے مراد ان کی سرکشی ہے۔ سیدنا ابن زید نے اس کی شہادت میں یہ آیت پڑھی «كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَآ»[91-الشمس:11] یعنی ” ثمودیوں نے اپنی سرکشی کے باعث جھٹلایا۔ “ یعنی اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں اور قوم عاد کی ٹھنڈی ہواؤں کے تیز جھونکوں سے دل چھید دیئے اور وہ نیست و نابود کر دیئے گئے۔