تفسير ابن كثير



نظر لگنے کا دم ٭٭

ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب سورۃ معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا ، [سنن ابن ماجہ:3511،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند وغیرہ میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے نبی! کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّه أَرْقِيك مِنْ كُلّ شَيْء يُؤْذِيك مِنْ شَرّ كُلّ نَفْس أَوْ عَيْن حَاسِد اللَّه يَشْفِيك بِسْمِ اللَّه أَرْقِيك» ۔ [صحیح مسلم:2186] ‏‏‏‏

بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے ۔ [صحیح بخاری:5740] ‏‏‏‏

مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے ۔ [مسند احمد:2/439:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند کی اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر، گھوڑا اور عورت تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا، ہاں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے ۔ [مسند احمد:289/2:صحیح لغیرہ] ‏‏‏‏

ترمذی وغیرہ میں ہے کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی ۔ [سنن ترمذي:2059،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے ۔ [صحیح بخاری:5738] ‏‏‏‏

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا۔ [سنن ابوداود:3880،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے نہیں ہے الو اور نظر حق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے ۔ مسند احمد میں بھی سیدنا سہل اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہما والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے، [مسند احمد:486/3:صحیح] ‏‏‏‏

بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہ پانی میں غسل کے لیے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور واقعہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے، تہمبد اونچا اٹھائے ہوئے، وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی «اللَّهُمَّ اِصْرِفْ عَنْهُ حَرّهَا وَبَرْدهَا وَوَصَبهَا» اے اللہ! تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے ۔ [مسند احمد:447/3:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند بزار میں ہے کہ میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہو گی ۔ [مسند بزار:3052:ضعیف] ‏‏‏‏

فرماتے ہیں نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک، میری امت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے ۔ [ضعیف] ‏‏‏‏ ایک اور صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے، [ابو نعیم فی الحیلة:90/7] ‏‏‏‏

فرمان رسالت ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کر لینا کوئی حقیقت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے، ہاں نظر سچ ہے ۔ [مسند احمد:2/222:صحیح] ‏‏‏‏

ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا: حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے، فرمایا: یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کلمات کیا ہیں؟ فرمایا: یوں کہیئے «للَّهُمَّ ذَا السُّلْطَان الْعَظِيم وَالْمَنّ الْقَدِيم ذَا الْوَجْه الْكَرِيم وَلِيّ الْكَلِمَات التَّامَّات وَالدَّعَوَات الْمُسْتَجَابَات عَافِ الْحَسَن وَالْحُسَيْن مِنْ أَنْفُس الْجِنّ وَأَعْيُن الْإِنْس» یعنی اے اللہ! اے بہت بڑی بادشاہی والے، اے زبردست قدیم احسانوں والے، اے بزرگ تر چہرے والے، اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں ۔ [ابن عساکر فی تاریخہ:503/8] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ ” جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں “۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے ” قرآن تو اللہ ان کی طرف سے تمام عالم کے لیے نصیحت نامہ ہے “۔

«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» سورۃ نون کی تفسیم ختم ہوئی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.