اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ” اے نبی! جو نعمتیں ہم نے تجھے دیں، جو صراط مستقیم اور خلق عظیم ہم نے تجھے عطا فرمایا اب تجھے چاہیئے کہ ہماری نہ ماننے والوں کی تو نہ مان، ان کی تو عین خوشی ہے کہ آپ ذرا بھی نرم پڑیں تو یہ کھل کر کھیلیں “۔ اور یہ بھی مطلب ہے کہ ” یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودان باطل کی طرف کچھ تو رخ کریں حق سے ذرا سا تو ادھر ادھر ہو جائیں “۔
پھر فرماتا ہے ” زیادہ قسمیں کھانے والے کمینے شخص کی بھی نہ مان “ - چونکہ جھوٹے شخصوں کو اپنی ذلت اور کذب بیانی کے ظاہر ہو جانے کا ڈر رہتا ہے، اس لیے وہ قسمیں کھا کھا کر دوسرے کو اپنا یقین دلانا چاہتا ہے لگاتار قسموں پر قسمیں کھائے چلا جاتا ہے اور اللہ کے ناموں کو بے موقعہ استعمال کرتا پھرتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «مَّهِينٍ» سے مراد «کاذب» ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف دل والا۔ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں «حَلَّافٍ» مکابرہ کرنے والا اور «مَّهِينٍ» ضعیف، «هَمَّازٍ» غیب کرنے والا، چغل خور جو ادھر کی ادھر لگائے اور ادھر کی ادھر تاکہ فساد ہو جائے۔ طبیعتوں میں نفرت اور دل میں دشمنی آ جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دو قبریں آ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا اور کسی بڑے امر پر نہیں ایک تو پیشاب کرنے میں پردے کا خیال نہ رکھتا تھا۔ دوسرا چغل خور تھا“۔ [صحیح بخاری:216] فرماتے ہیں ”چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔“[صحیح بخاری:6056]
دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس وقت سنائی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ شخص خفیہ پولیس کا آدمی ہے۔ [مسند احمد:389/5:صحیح]