نون وغیرہ جیسے حروف ہجا کا مفصل بیان سورۃ البقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے اس لیے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں، کہا گیا ہے کہ یہاں ”ن“ سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا ” لکھ “ اس نے کہا: کیا لکھوں؟ فرمایا ” تقدیر لکھ ڈال “ پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہو گیا پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کر دیا“، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:14/29:قال امام حاكم:صحیح] مطلب یہ ہے کہ یہاں ”ن“ سے مراد یہ مچھلی ہے۔
طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ ”سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا، قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں؟ حکم ہوا، ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے“، پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے۔ [طبرانی:8652-8653:ضعیف]
ابن عساکر کی حدیث میں ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا: ” لکھ “ اس نے پوچھا: کیا؟ فرمایا ” جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے “ عمل، رزق، عمر، موت وغیرہ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا ۔
اس آیت میں یہی مراد ہے، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا، پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا ” مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا “۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ مشہور تھا کہ نون سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے“، بغوی رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ ”اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے۔“ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور تعجب تو یہ ہے کہ ان بعض مفسرین نے اس حدیث کو بھی انہی معنی پر محمول کیا ہے جو مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ جب سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بہت کچھ سوالات کئے ـ کہا کہ میں وہ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنہیں نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا بتائیے قیامت کے پہلی نشانی کیا ہے؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ کبھی بچہ اپنے باپ کی صورت میں ہوتا ہے کبھی ماں کی صورت پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ باتیں ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتا دیں“، سیدنا ابن سلام رضی اللہ عنہ کہنے لگے فرشتوں میں سے یہی فرشتہ ہے جو یہودیوں کا دشمن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ہے اور مرد کا پانی عورت کے پانی پر سابق آ جائے تو لڑکا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جائے تو وہی کھینچ لیتی ہے“۔ [مسند احمد:108/3:صحیح]
دوسری حدیث میں اتنی زیادتی ہے کہ پوچھا جنتیوں کے اس کھانے کے بعد انہیں کیا ملے گا؟ فرمایا: ”جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت میں چرتا چگتا رہا تھا“، پوچھا: انہیں پانی کون سا ملے گا؟ فرمایا: ” «سلسبیل» نامی نہر کا“۔ [صحیح مسلم:315]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”مراد «ن» سے نور کی تختی ہے۔“ ایک مرسل غریب حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد نور کی تختی اور نور کا حکم ہے جو قیامت تک کے حال پر چل چکا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34540:مرسل و ضعیف]
ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے خبر دی گئی ہے کہ ”یہ نورانی قلم سو سال کی طولانی رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «ن» سے مراد دوات ہے اور «قلم» سے مراد قلم ہے۔“[ضعیف] حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں۔
ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ مروی ہے جو ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ نے «نون» کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے «نون» یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا، پھر فرمایا ” لکھ “ اس نے پوچھا: ”کیا لکھوں؟“ فرمایا: ” جو قیامت تک ہونے والا ہے “، اعمال خواہ نیک ہوں، خواہ بد، روزی خواہ حلال ہو، خواہ حرام، پھر یہ بھی کہ کون سی چیز دنیا میں کب آئے گی کس قدر رہے گی، کیسے نکلے گی، پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کئے اور کتاب پر داروغے مقرر کئے، محافظ فرشتے ہر دن ان کے عمل خازن فرشتوں سے دریافت کر کے لکھ لیتے ہیں جب رزق ختم ہو جاتا ہے عمر پوری ہو جاتی ہے اجل آ پہنچتی ہے تو محافظ فرشتے داروغہ فرشتوں کے پاس آ کر پوچھتے ہیں بتاؤ آج کے دن کا کیا سامان ہے؟ وہ کہتے ہیں بس اس شخص کے لیے ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا، یہ سن کر یہ فرشتے نیچے اترتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا“ ـ
اس بیان کے بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ”تم تو عرب ہو کیا تم نے قرآن میں محافظ فرشتوں کی بابت یہ نہیں پڑھا؟“ «اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» [45-الجاثية:29] مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو اصل سے نقل کر لیا کرتے تھے۔