پھر دوسری مثال مریم بنت عمران علیہا السلام کی بیان کی جاتی ہے کہ ” وہ نہایت پاک دامن تھیں، ہم نے اپنے فرشتے جبرائیل علیہ السلام کی معرفت ان میں روح پھونکی “۔ جبرائیل علیہ السلام کو انسانی صورت میں اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ وہ اپنے منہ سے ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک مار دیں، اسی سے حمل رہ گیا اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔
پس فرمان ہے کہ ” میں نے اس میں اپنی روح پھونکی “، پھر مریم علیہ السلام کی اور تعریف ہو رہی ہے کہ وہ ” اپنے رب کی تقدیر اور شریعت کو سچ ماننے والی تھیں اور پوری فرمانبردار تھیں “۔
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟، انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو پورا علم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو تمام جنتی عورتوں میں سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں“۔ [مسند احمد:293/1:صحیح]
صحیح بخاری، صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں میں سے تو صاحب کمال بہت سارے ہوئے ہیں، لیکن عورتوں میں سے کامل عورتیں صرف آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور مریم بنت عمران ہیں اور خدیجہ بنت خویلد ہیں اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے سالن میں چوری ہوئی روٹی کی فضیلت باقی کھانوں پر“۔ [صحیح بخاری:3769] ہم نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے قصے کے بیان کے موقعہ پر اس حدیث کی سندیں اور الفاظ بیان کر دیئے ہیں۔ «فالحمداللہ»
اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسی سورت کی آیت کے الفاظ «سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا»[66-التحریم:5] کی تفسیر کے موقعہ پر وہ حدیث بھی ہم بیان کر چکے ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنتی بیویوں میں ایک آسیہ رضی اللہ عنہا بنت مزاحم بھی ہیں ۔
الحمداللہ سورۃ التحریم کی تفسیر ختم ہوئی۔
اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے اٹھائیسویں پارے «قد سمع اللہ» کی تفسیر ختم ہوئی، پروردگار ہمیں اپنے کلام کی سچی سمجھ عطا فرمائے اور عمل کی توفیق دے۔ باری تعالیٰ تو اسے قبول فرما اور میرے لیے باقیات صالحات میں کر لے «آمین!» ۔