اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ” کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ، ان پر دنیا میں سختی کرو، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے “۔
پھر مثال دے کر سمجھایا کہ ” کافروں کا مسلمانوں سے ملنا جلنا، خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ آئی، انبیاء اللہ علیہم السلام انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا “۔
یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں، انبیاء علیہم السلام کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں، ہم اس کا پورا بیان سورۃ النور کی تفسیر میں کر چکے ہیں، بلکہ یہاں مراد «خیانت فی الدین» ہے، یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”ان کی خیانت زنا کاری نہ تھی بلکہ یہ تھی کہ نوح علیہ السلام کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط علیہ السلام کی بیوی جو مہمان لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کر دیتی تھی۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:169/28:ضعیف]
یہ دونوں بد دین تھیں نوح علیہ السلام کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کر دیا کرتی تھی، اسی طرح لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول علیہ السلام کی مخالف تھی اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کر دیتی جنہیں بدعمل کی عادت تھی، بلکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی۔“
اسی طرح عکرمہ، سعید بن جبیر، ضحاک رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی مروی ہے، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے ”جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے“، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بے اصل ہے۔ ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا آپ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن اب میں کہتا ہوں۔“[سلسلة احادیث ضعیفہ البانی:315]