قیامت کے دن کفار سے فرمایا جائے گا کہ ” آج تم بے کار عذر پیش نہ کرو، کوئی معذرت ہمارے سامنے نہ چل سکے گی، تمہارے کرتوت کا مزہ تمہیں چکھنا ہی پڑے گا “۔
پھر ارشاد ہے کہ ” اے ایمان والو تم سچی اور خالص توبہ کرو جس سے تمہارے اگلے گناہ معاف ہو جائیں میل کچیل دھل جائے، برائیوں کی عادت ختم ہو جائے “۔
نعمان بن بشیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا کہ ”لوگو! میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ خالص توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کی معافی چاہے اور پھر اس گناہ کو نہ کرے۔“[مستدرک حاکم490/2:ضعیف]
اور روایت میں ہے پھر اس کے کرنے کا ارادہ بھی نہ کرے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے قریب مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے جو ضعیف ہے اور ٹھیک یہی ہے کہ وہ بھی موقوف ہی ہے۔ [مسند احمد:446/1:ضعیف] «وَاللهُ اَعْلَمُ»