پھر فرمایا ” ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لیے کہ جی خوش رہے “، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔
معجم طبرانی میں ابن یزید رحمہ اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو سیدہ آسیہ علیہ السلام ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد سیدہ مریم علیہ السلام ہیں جو عمران کی بیٹی تھیں۔
ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے، نہ تکلیف ہے، نہ شورو غل جو چھیدے ہوئے موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران علیہا السلام اور آسیہ بنت مزاحم علیہا السلام کے مکانات ہیں۔ [ابن عساکر فی تاریخ دمشق،543/19:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خدیجہ! اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا۔“ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے“۔ [ابن عساکر فی تاریخ دمشق،543/19:ضعیف] یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
ابوامامہ سے ابو یعلیٰ میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران، کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کر دیا ہے“، میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کو مبارک ہو ۔ [ابن عدی فی الکامل،180/7:ضعیف] یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے۔