تفسير ابن كثير



عمر اور موافقت قرانی ٭٭

صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں غیرت میں آ گئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا، پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری [صحیح بخاری:4916] ‏‏‏‏

پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں، بدری قیدیوں کے بارے میں، مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدمت میں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود نصیحت کرنے کے لیے کم ہیں جو تم آ گئے؟ اس پر میں خاموش ہو گیا لیکن قرآن میں آیت «عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا» [66-التحریم:5] ‏‏‏‏ نازل ہوئی۔

صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ [صحیح بخاری:4913] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا: تم عائشہ کو خبر نہ کرنا، میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت ابوبکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر کر دی پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے علیم و خبیر اللہ نے خبر پہنچائی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کر لی اس پر آیت «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» [66-التحريم:1] ‏‏‏‏، نازل ہوئی ۔ [طبرانی کبیر:12640:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اس کی سند مخدوش ہے، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسیر ظاہر ہو گئی۔

«مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ» کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے۔ «سَائِحَاتٍ» کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورۃ برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گزر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:508/14] ‏‏‏‏ دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.