اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ” جب ان میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے تو عدت کے گزر جانے تک اس کے رہنے سہنے کو اپنا مکان دے “۔
یہ جگہ اپنی طاقت کے مطابق ہے یہاں تک کہ فتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اگر زیادہ وسعت نہ ہو تو اپنے ہی مکان کا ایک کونہ اسے دے دے“، اسے تکلیفیں پہنچا کر اس قدر تنگ نہ کرو کہ وہ مکان چھوڑ کر چلی جائے یا تم سے چھوٹنے کے لیے اپنا حق مہر چھوڑ دے یا اس طرح کہ طلاق دی دیکھا کہ دو ایک روز عدت کے رہ گئے ہیں رجوع کا اعلان کر دیا پھر طلاق دے دی اور عدت کے ختم ہونے کے قریب رجعت کر لی تاکہ نہ وہ بیچاری سہاگن رہے نہ رانڈ۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” اگر طلاق والی عورت حمل سے ہو تو بچہ ہونے تک اس کا نان نفقہ اس کے خاوند کے ذمہ ہے “۔
اکثر علماء کا فرمان ہے کہ یہ خصوصاً ان عورتوں کے لیے بیان ہو رہا ہے جنہیں آخری طلاق دے دی گئی ہو جس سے رجوع کرنے کا حق ان کے خاوندوں کو نہ رہا ہو اس لیے کہ جن سے رجوع ہو سکتا ہے ان کی عدت تک کا خرچ تو خاوند کے ذمہ ہے ہی وہ حمل سے ہوں تب اور بے حمل ہوں تو بھی۔
اور حضرات علماء فرماتے ہیں، یہ حکم بھی انہیں عورتوں کا بیان ہو رہا ہے جن سے رجعت کا حق حاصل ہے کیونکہ اوپر بھی انہی کا بیان تھا، اسے الگ اس لیے بیان کر دیا کہ عموماً حمل کی مدت لمبی ہوتی ہے، اس لمحے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ عدت کے زمانے جتنا نفقہ تو ہمارے ذمہ ہے پھر نہیں، اس لیے صاف طور پر فرما دیا کہ ” رجعت والی طلاق کے وقت اگر عورت حمل سے ہو تو جب تک بچہ نہ ہو اس کا کھلانا پلانا خاوند کے ذمہ ہے “۔
پھر اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ خرچ اس کے لیے حمل کے واسطے سے ہے یا حمل کے لیے ہے، امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ سے دونوں قول مروی ہیں اور اس بناء پر بہت سے فروعی مسائل میں بھی اختلاف رونما ہوا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” جب یہ مطلقہ عورتیں حمل سے فارغ ہو جائیں تو اگر تمہاری اولاد کو وہ دودھ پلائیں تو تمہیں ان کی دودھ پلائی دینی چاہیئے “۔
ہاں عورت کو اختیار ہے خواہ دودھ پلائے یا نہ پلائے لیکن اول دفعہ کا دودھ اسے ضرور پلانا چاہیئے، گو پھر دودھ نہ پلائے کیونکہ عموماً بچہ کی زندگی اس دودھ کے ساتھ وابستہ ہے اگر وہ بعد میں بھی دودھ پلاتی رہے تو ماں باپ کے درمیان جو اجرت طے ہو جائے وہ ادا کرنی چاہیئے۔
فرمایا ” تم میں آپس میں جو کام ہوں وہ بھلائی کے ساتھ باقاعدہ دستور کے مطابق ہونے چاہئیں نہ اس کے نقصان کے درپے رہے نہ وہ اسے ایذاء پہنچانے کی کوشش کرے “، جیسے سورۃ البقرہ میں فرمایا «لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ»[2-البقرۃ:233] یعنی ” بچہ کے بارے میں نہ اس کی ماں کو ضرور پہنچایا جائے نہ اس کے باپ کو “۔
پھر فرماتا ہے ” اگر آپس میں اختلاف بڑھ جائے مثلاً لڑکے کا باپ کم دینا چاہتا ہے اور اس کی ماں کو منظور نہیں یا ماں زائد مانگتی ہے جو باپ پر گراں ہے اور موافقت نہیں ہو سکتی دونوں کسی بات پر رضامند نہیں ہوتے تو اختیار ہے کہ کسی اور دایہ کو دیں ہاں جو اور دایہ کو دیا جانا منظور کیا جاتا ہے اگر اسی پر اس بچہ کی ماں رضامند ہو جائے تو زیادہ مستحق یہی ہے “۔
پھر فرماتا ہے کہ ” بچے کا باپ یا ولی جو ہو اسے چاہیئے کہ بچے پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے، تنگی والا اپنی طاقت کے مطابق دے، طاقت سے بڑھ کر تکلیف کسی کو اللہ نہیں دیتا “۔
تفسیر ابن جریر میں ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی بابت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ موٹا کپڑا پہنتے ہیں اور ہلکی غذا کھاتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں ایک ہزار دینار بھجوا دو اور جس کے ہاتھ بھجوائے ان سے کہہ دیا کہ ”دیکھنا وہ ان دیناروں کو پا کر کیا کرتے ہیں؟“
جب یہ اشرفیاں انہیں مل گئیں تو انہوں نے باریک کپڑے پہننے اور نہایت نفیس غذائیں کھانی شروع کر دیں، قاصد نے واپس آ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا ”اللہ اس پر رحم کرے اس نے اس آیت پر عمل کیا کہ کشادگی والا اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرے اور تنگی و ترشی والا اپنی حالت کے موافق۔“
طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کے پاس دس دینار تھے، اس نے ان میں سے ایک راہ اللہ صدقہ کیا، دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے، اس نے اس میں سے ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم خرچ کئے، تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے، جس میں سے اس نے اللہ کے نام پر دس اوقیہ خرچ کئے، تو یہ سب اجر میں اللہ کے نزدیک برابر ہیں اس لیے کہ ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ فی سبیل اللہ دیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سچا وعدہ دیتا ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا“[طبرانی:3439:ضعیف]
جیسے اور جگہ فرمایا «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا»[94-الشرح:6] ” بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے “۔