پھر فرمان ہے ” عدت کی حفاظت کرو اور اس بارے میں اپنے ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے اور اس بارے میں اپنے معبود حقیقی پروردگار عالم سے ڈرتے رہو “۔ عدت کے زمانہ میں مطلقہ عورت کی رہائش کا مکان خاوند کے ذمہ ہے وہ اسے نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے۔
«فَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ» زنا کو بھی شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے، اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے، یا بدزبانی و کج خلقی شروع کر دے اور اپنے کاموں سے اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں بیشک خاوند کو جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کی شریعت اور اس کے بتائے ہوئے احکام ہیں۔ جو شخص ان پر عمل نہ کرے انہیں بے حرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اور اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کو نئی بات پیدا کر دے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جان سکتا۔
عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گزارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں، طلاق دینے پر نادم ہو، دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہو جائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن و امان سے گزارا کرنے لگیں، نیا کام پیدا کرنے سے مراد بھی رجعت ہے۔
اسی بنا پر بعض سلف اور ان کے تابعین مثلاً امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہم وغیرہ کا مذہب ہے کہ «مبتوتہ» یعنی وہ عورت جس کی طلاق کے بعد خاوند کو رجعت کا حق باقی نہ رہا ہو اس کے لیے عدت گزارنے کے زمانے تک مکان کا دینا خاوند کے ذمہ نہیں، اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اسے بھی رہائشی مکان عدت تک کے لیے دینا اس کے وارثوں پر نہیں۔
ان کی اعتمادی دلیل فاطمہ بنت قیس فہریہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے کہ جب ان کے خاوند ابوعمر بن حفص رضی اللہ عنہ نے ان کو تیسری آخری طلاق دی اور وہ اس وقت یہاں موجود نہ تھے بلکہ یمن میں تھے اور وہیں سے طلاق دی تھی تو ان کے وکیل نے ان کے پاس تھوڑے سے جو بھیج دیئے تھے کہ یہ تمہاری خوراک ہے یہ بہت ناراض ہوئیں اس نے کہا بگڑتی کیوں ہو؟ تمہارا نفقہ کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے تیرا نفقہ اس پر نہیں۔“
مسلم میں ہے نہ تیرے رہنے سہنے کا گھر اور ان سے فرمایا: ”تم ام شریک کے گھر اپنی عدت گزارو“، پھر فرمایا: ”وہاں تو میرے اکثر صحابہ آیا جایا کرتے ہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت کا زمانہ گزارو وہ ایک نابینا آدمی ہیں تم وہاں آرام سے اپنے کپڑے بھی رکھ سکتی ہو“۔ [صحیح مسلم:1480]
مسند احمد میں ہے کہ ان کے خاوند کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جہاد پر بھیجا تھا، انہوں نے وہیں سے انہیں طلاق بھیج دی، ان کے بھائی نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر سے چلی جاؤ، انہوں نے کہا: نہیں! جب تک عدت ختم نہ ہو جائے میرا کھانا پینا اور رہنا سہنا میرے خاوند کے ذمہ ہے۔ اس نے انکار کیا، آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ یہ آخری تیسری طلاق ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”نان نفقہ، گھربار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں، تم یہاں سے چلی جاؤ اور فلاں عورت کے گھر اپنی عدت گزارو ۔ پھر فرمایا: ”وہاں تو صحابہ کی آمد و رفت ہے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت کا زمانہ گزارو وہ نابینا ہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتے“ ۔ [مسند احمد:373/6:ضعیف]
طبرانی میں ہے یہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ضحاک بن قیس قرشی رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ان کے خاوند مخزومی قبیلہ کے تھے، طلاق کی خبر کے بعد ان کے نفقہ طلب کرنے پر ان کے خاوند کے اولیاء نے کہا تھا، نہ تو تمہارے میاں نے کچھ بھیجا ہے، نہ ہمیں دینے کو کہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ ”جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے اگلے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے، جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہو جائے، تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں“ ۔ [سنن نسائی:3432،قال الشيخ الألباني:صحیح]