اولاً تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرافت و کرامت کے طور پر خطاب کیا گیا پھر تبعاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے خطاب کیا گیا اور طلاق کے مسئلہ کو سمجھایا گیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی وہ اپنے میکے آ گئیں اس پر یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ” ان سے رجوع کر لو، وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:24244:ضعیف و مرسل] یہی روایت مرسلاً ابن جریر میں بھی ہے اور سندوں سے بھی آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: ”اسے چاہیئے کہ رجوع کر لے، پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے، پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں“، یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے، یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔ [صحیح بخاری:4908] یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مذکور ہے۔
عبدالرحمٰن بن ایمن رحمہ الله نے جو عزہ کے مولیٰ ہیں ابوالزبیر رحمہ الله کے سنتے ہوئے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی؟، تو آپ نے فرمایا ”سنو! ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طلاق دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لوٹا لے، چنانچہ ابن عمر نے رجوع کر لیا اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”اس سے پاک ہو جانے کے بعد اسے اختیار ہے خواہ طلاق دے خواہ بسا لے“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ»[65-الطلاق:1] [صحیح مسلم:1471]
دوسری روایت میں «فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ» یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہو چکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آ جائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «عدت» سے مراد طہر ہے۔“ «قرء» سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں، جب حمل ظاہر ہو، جس طہر میں مجامعت کر چکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں، یہیں سے باسمجھ علماء نے احکام طلاق لیے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت۔
طلاق سنت تو یہ ہے کہ طہر کی یعنی پاکیزگی کی حالت میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یا حالت حمل میں طلاق دے اور بدعی طلاق یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیکن مجامعت کر چکا ہو اور معلوم نہ ہو کہ حمل ہے یا نہیں؟
طلاق کی تیسری قسم بھی ہے جو نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت اور وہ نابالغہ کی طلاق ہے اور اس عورت کی جسے حیض کے آنے سے ناامیدی ہو چکی ہو اور اس عورت کی جس سے دخول نہ ہوا۔ ان سب کے احکام اور تفصیلی بحث کی جگہ کتب فروغ ہیں نہ کہ تفسیر۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَىٰ اَعْلَمُ»