تفسير ابن كثير



مسلمان بیٹے کا منافق باپ کا راستہ روکنا ٭٭

عکرمہ اور ابن زید رحمہا اللہ کا بیان ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے عبداللہ رضی اللہ عنہ مدینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تلوار کھینچ لی، لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو، مدینہ میں نہ جاؤ، اس نے کہا: کیا بات ہے؟ مجھے کیوں روک رہا ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو مدینہ میں نہیں جا سکتا، جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے اجازت نہ دیں، عزت والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور تو ذلیل ہے۔

یہ رک کر کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: قسم ہے اللہ کی! جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جا سکتا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اب عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34171:مرسل] ‏‏‏‏ مسند حمیدی میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جا سکتا اور اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا، لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئیے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئیے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں۔ [مسند حمیدی:520/2] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.