دوسری آیت کی تفسیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ» سے کیا مراد ہے تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا، تب آپ نے اپنا ہاتھ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا: ”اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے۔“[صحیح بخاری:4898]
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لیے مخصوص نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔
مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی عرب کے سوا کے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ «إِنَّ فِي أَصْلَاب أَصْلَاب أَصْلَاب رِجَال وَنِسَاء مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّة بِغَيْرِ حِسَاب» اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے [ طبرانی:6005] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ»[الجمعہ:3] ۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے۔
پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا، اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔