اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال، عزت آبرو، قول فعل، نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں۔
پھر مثال دیتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے تابعداروں کو دیکھو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں۔
چنانچہ روح اللہ علیہ صلوالت اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا، حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں۔ [سنن ابوداود:4734،قال الشيخ الألباني:۔صحیح] ۔
چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں قبول کیں اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے۔
پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لیے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا، اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین!
جبکہ حواریوں کو لے کر آپ علیہ السلام دین اللہ کی تبلیغ کے لیے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ علیہ السلام کو اور آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ بن گئے۔
پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گزر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہو گئے، بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس اور بعض نے تو آپ علیہ السلام کو اللہ ہی مان لیا، ان سب کا ذکر سورۃ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو۔