وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت «وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا»[ 72۔ الجن: 15 ] ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبودار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔ [آمین] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے۔ [ ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم ] سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے سدی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت «اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ»[ 21۔ الانبیآء: 98 ] تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں، قرطبی اور رازی رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لیے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لیے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت «كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا»[ 17۔ الاسرآء: 97 ] جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا۔
ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لیے تیار کئے گئے ہیں۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لیے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لیے ہے۔ لہٰذا آگ کی تیاری کے لیے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:383/1] اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ ”اعدت“ کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔
ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا، [صحیح بخاری:4850:صحیح] دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی۔ [صحیح بخاری:537] تیسری حدیث میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہہ کو پہنچا۔ [صحیح مسلم:2844] چوتھی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا۔ [صحیح بخاری:1052] پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لیے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے۔
امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ الکوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بے جا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجزہ نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لیے پسند کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی رحمہ اللہ کا کہنا ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بے بس ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے [ تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ] تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بے حد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے۔ پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا «یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر» یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام؟