ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت ٭٭
پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں، بعض علماء سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں [ ۱ ] جب وعدہ کرے خلاف کرے، [ ۲ ] جب بات کرے جھوٹ بولے، [ ۳ ] جب امانت دیا جائے خیانت کرے۔“[صحیح بخاری:33]
دوسری صحیح حدیث میں ہے چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے۔ [صحیح بخاری:24] شرح صحیح بخاری کی ابتداء میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کر دی ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
اسی لیے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو، مسند احمد اور ابوداؤد میں عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لیے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ دینا بھی چاہتی ہو؟“ میری والدہ نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ ! کھجوریں دوں گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا۔“[سنن ابوداود:4991،قال الشيخ الألباني:۔صحیح]
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو وفا کرنا واجب ہو جاتا ہے، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لیے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔