صحیح بخاری میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو مسلمان عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا، جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کر لیتی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زبانی فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت کی یہ نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوں اللہ کی قسم آپ نے کبھی بیعت کرتے ہوئے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف زبانی فرما دیتے کہ ان باتوں پر میں نے تیری بیعت لی ۔ [صحیح بخاری:4891]
ترمذی، نسائی ابن ماجہ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ سیدہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کئی ایک عورتوں کے ساتھ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئی تو قرآن کی اس آیت کے مطابق آپ نے ہم سے عہد و پیمان لیا اور ہم بھلی باتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں گی کے اقرار کے وقت فرمایا یہ بھی کہہ لو کہ جہاں تک تمہاری طاقت ہے، ہم نے کہا: اللہ کو اور اس کے رسول کو ہمارا خیال ہم سے بہت زیادہ ہے اور ان کی مہربانی بھی ہم پر خود ہماری مہربانی سے بڑھ چڑھ کر ہے، پھر ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے؟ فرمایا: ”نہیں، میں غیر عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا میرا ایک عورت سے کہہ دینا سو عورتوں کی بیعت کے لیے کافی ہے، بس بیعت ہو چکی“، امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں، مسند احمد میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ ہم میں سے کسی عورت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ نہیں کیا، [سنن ترمذي:1598،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ سیدہ امیمہ، خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ ہیں، مسند احمد میں سیدہ سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں اور دونوں قبلوں کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تھی، جو بنو عدی بن نجار کے قبیلہ میں سے تھیں، فرماتی ہیں: انصار کی عورتوں کے ساتھ خدمت نبوی میں بیعت کرنے کے لیے میں بھی آئی تھی اور اس آیت میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا ہم نے اقرار کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کا بھی اقرار کرو کہ اپنے خاوندوں کی خیانت اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو گی“، ہم نے اس کا بھی اقرار کیا بیعت کی اور جانے لگیں پھر مجھے خیال آیا اور ایک عورت کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ دریافت کر لیں کہ خیانت و دھوکہ نہ کرنے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ اس کا مال چپکے سے کسی اور کو نہ دو۔“[مسند احمد:6/379ضعیف]
مسند کی حدیث میں ہے سیدہ عائشہ بنت قدامہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اپنی والدہ رایطہ بنت سفیان نزاعیہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں پر بیعت لے رہے تھے اور عورتیں ان کا اقرار کرتی تھیں میری والدہ کے فرمان سے میں نے بھی اقرار کیا اور بیعت والیوں میں شامل ہوئی ، [صحیح بخاری:4892]
صحیح بخاری میں سیدہ ام عطیہ سے منقول ہے کہ ہم نے ان باتوں پر اور اس امر پر کہ ہم کسی مرے پر نوحہ نہ کریں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، اسی اثناء میں ایک عورت نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں نوحہ کرنے سے باز رہنے پر بیعت نہیں کرتی اس لیے کہ فلاں عورت نے میرے فلاں مرے پر نوحہ کرنے میں میری مدد کی ہے تو میں اس کا بدلہ ضرور اتاروں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر خاموش ہو رہے اور کچھ نہ فرمایا وہ چلی گئیں لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئیں اور بیعت کر لی۔
مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس شرط کو صرف اس عورت نے اور سیدہ ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے ہی پورا کیا، [صحیح بخاری:4892]
بخاری کی اور روایت میں ہے کہ پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا، ام سلیم، ام علام، ابوسبرہ کی بیٹی جو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور دو عورتیں اور یا ابوسبرہ کی بیٹی اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی بیوی اور ایک عورت اور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن بھی عورتوں سے اس بیعت کا معاہدہ لیا کرتے تھے ، [صحیح بخاری:1306]
صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رمضان کی عید کی نماز میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ پڑھی ہے سب کے سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے، پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے، ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے اترے گویا وہ نقشہ میری نگاہ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے تشریف لا رہے تھے، یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے یہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[الممتحنہ:12] کی تلاوت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم اپنے اس اقرار پر ثابت قدم ہو ایک عورت نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ہاں، اے اللہ کے رسول ! اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کسی اور نے جواب نہیں دیا، راوی حدیث حسن رحمہ اللہ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب دینے والی کون سی عورت تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا خیرات کرو“ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا چنانچہ عورتوں نے اس پر بےنگینہ کی اور نگینہ دار انگوٹھیاں راہ اللہ ڈال دیں ۔ [صحیح بخاری:4895]
مسند احمد کی روایت میں سیدہ امیمہ رضی اللہ عنہا کی بیعت کے ذکر میں آیت کے علاوہ اتنا اور بھی ہے کہ نوحہ کرنا اور جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنا بناؤ سنگھار غیر مردوں کو نہ دکھانا ، [مسند احمد:196/2:صحیح]
بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے بھی ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرو جو اس آیت میں ہیں، جو شخص اس بیعت کو نبھا دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو اس کے خلاف کر گزرے اور وہ مسلم حکومت سے پوشیدہ رہے اس کا حساب اللہ کے پاس ہے اگر چاہے بخش دے اور اگر چاہے عذاب کرے ۔ [صحیح بخاری:18]
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عقبہ اولیٰ میں ہم بارہ شخصوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہی باتوں پر جو اس آیت میں مذکور ہیں آپ نے ہم سے بیعت لی اور فرمایا: ”اگر تم اس پر پورے اترے تو یقیناً تمہارے لیے جنت ہے“، یہ واقعہ جہاد کی فرضیت سے پہلے کا ہے۔
ابن جریر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ان کی بیعت کے لیے آنے والیوں میں سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا تھیں، عقبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور سفیان کی بیوی یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چیر دیا تھا اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت سے آئی تھیں کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن اگر بولوں گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گے، میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ نہ پہچانی جاؤں، مگر اور عورتیں سب خاموش رہیں اور ان کی بات اپنی زبان سے کہنے سے انکار کر دیا، آخر ان ہی کو کہنا پڑا کہ یہ ٹھیک ہے جب شرک کی ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو کیوں نہ ہو گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ان سے کہہ دو کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ چوری نہ کریں، اس پر ہندہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں ابوسفیان کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے لیا کرتی ہوں کیا یہ بھی چوری میں دخل ہے یا نہیں؟ اور میرے لیے یہ حلال بھی ہے یا نہیں؟ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ بھی اسی مجلس میں موجود تھے، یہ سنتے ہی کہنے لگے، میرے گھر میں جو کچھ بھی تو نے لیا ہو خواہ وہ خرچ میں آ گیا ہو یا اب بھی باقی ہو وہ سب میں تیرے لیے حلال کرتا ہوں، اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف پہچان لیا کہ یہ میرے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قاتلہ اور اس کے کلیجے کو چیرنے والی پھر اسے چبانے والی عورت ہندہ رضی اللہ عنہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کر اور ان کی یہ گفتگو دیکھ کر مسکرا دیئے اور انہیں اپنے پاس بلایا انہوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر معافی مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم وہی ہندہ ہو؟“ انہوں نے کہا: گزشتہ گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے اور بیعت کے سلسلہ میں پھر لگ گئے اور فرمایا: ”تیسری بات یہ ہے کہ ان عورتوں میں سے کوئی بدکاری نہ کرے“، اس پر سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا کوئی آزاد عورت بھی بدکاری کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے، اللہ کی قسم آزاد عورتیں اس برے کام سے ہرگز آلود نہیں ہوتیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں“ ہندہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے انہیں بدر کے دن قتل کیا ہے، آپ جانیں اور وہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچویں بات یہ ہے کہ خود اپنی ہی طرف سے جوڑ کر بےسر پیر کا کوئی خاص بہتان نہ تراش لیں اور چھٹی بات یہ ہے کہ میری شرعی باتوں میں میری نافرمانی نہ کریں“ اور ساتواں عہد آپ نے ان سے یہ بھی لیا کہ وہ نوحہ نہ کریں اہل جاہلیت اپنے کسی کے مر جانے پر کپڑے پھاڑ ڈالتے تھے منہ نوچ لیتے تھے بال کٹوا دیتے تھے اور ہائے وائے کیا کرتے تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34013:ضعیف] یہ اثر غریب ہے اور اس کے بعض حصے میں نکارت بھی ہے اس لیے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا کے اسلام کے وقت انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ اس سے بھی آپ نے صفائی اور محبت کا اظہار کر دیا تھا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن بیعت والی یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر مردوں سے بیعت لی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں سے بیعت لی اس میں اتنا اور بھی ہے کہ اولاد کے قتل کی ممانعت سن کر ہندہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے تو انہیں چھٹپنے پال پوس کر بڑا کیا لیکن ان بڑوں کو تم نے قتل کیا، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارے ہنسی کے لوٹ لوٹ گئے۔
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ جب سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا بیعت کرنے آئیں تو ان کے ہاتھ مردوں کی طرح سفید تھے، آپ نے فرمایا: ”جاؤ ان کا رنگ بدل لو“ چنانچہ وہ مہندی لگا کر حاضر ہوئیں، ان کے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے تھے انہوں نے پوچھا کہ ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ فرمایا: ”جہنم کی آگ کے دو انگارے ہیں“، [مسند ابویعلیٰ194/8:ضعیف] (یہ حکم اس وقت ہے جب ان کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے)
اس بیعت کے لینے کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا، جب اولادوں کے قتل کی ممانعت پر ان سے عہد لیا گیا تو ایک عورت نے کہا، ان کے باپ دادوں کو تو قتل کیا اور ان کی اولاد کی وصیت ہمیں ہو رہی ہے، یہ شروع شروع میں صورت بیعت کی تھی لیکن پھر اس کے بعد آپ نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ جب بیعت کرنے کے لیے عورتیں جمع ہو جاتیں تو آپ یہ سب باتیں ان پر پیش فرماتے، وہ ان کا اقرار کرتیں اور واپس لوٹ جاتیں۔
پس فرمان اللہ ہے کہ جو عورت ان امور پر بیعت کرنے کے لیے آئے تو اس سے بیعت لے لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، غیر لوگوں کے مال نہ چرانا، ہاں اس عورت کو جس کا خاوند اپنی طاقت کے مطابق کھانے پینے پہننے اوڑھنے کو نہ دیتا ہو جائز ہے کہ اپنے خاند کے مال سے مطابق دستور اور بقدر اپنی حاجت کے لے گو خاوند کو اس کا علم نہ ہو اس کی دلیل ہندہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! میرے خاوند ابوسفیان بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولادوں کو کافی ہو سکے تو کیا میں اگر ان کی بےخبری میں اور ان کے مال میں لے لوں تو مجھے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بطریق معروف اس کے مال سے اتنا لے لے جو تجھے اور تیرے بال بچوں کو کفایت کرے۔ [صحیح بخاری:2211]
اور زناکاری نہ کریں، جیسے اور جگہ ہے «وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا»[17-الاسراء:32] کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے، سیدہ سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں زنا کی سزا اور درد ناک عذاب جہنم بیان کیا گیا ہے، [صحیح بخاری:7047]
مسند احمد میں ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت عقبہ رضی اللہ عنہا جب بیعت کے لیے آئیں اور اس آیت کی تلاوت ان کے سامنے کی گئی تو انہوں نے شرم سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا آپ کو ان کی یہ حیاء اچھی معلوم ہوئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا انہی شرطوں پر ہم سب نے بیعت کی ہے یہ سن کر انہوں نے بھی بیعت کر لی، [مسند احمد:151/6:صحیح]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے طریقے اوپر بیان ہو چکے ہیں، اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم عام ہے، پیدا شدہ اولاد کو مار ڈالنا بھی اسی ممانعت میں ہے جیسے کہ جاہلیت کے زمانے والے اس خوف سے کرتے تھے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے پلائیں گے، اور حمل کا گرا دینا بھی اسی ممانعت میں ہے خواہ اس طرح ہو کہ ایسے علاج کئے جائیں جس سے حمل ٹھہرے ہی نہیں یا ٹھہرے ہوئے حمل کو کسی طرح گرا دیا جائے۔
بری غرض وغیرہ سے، بہتان نہ باندھنے کا ایک مطلب تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اولاد کو اپنے خاوند کے سر چپکا دینا۔
ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ «ملاعنہ» کی آیت کے نازل ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت کسی قوم میں اسے داخل کرے جو اس قوم کا نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی گنتی شمار میں نہیں اور جو شخص اپنی اولاد سے انکار کر جائے حالانکہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اللہ تعالیٰ اس سے آڑ کر لے گا اور تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے اسے رسوا و ذلیل کرے گا“، [سنن ابوداود:2263،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں یعنی آپ کے احکام بجا لائیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جایا کریں، یہ شرط یعنی معروف ہونے کی عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے لگا دی ہے، میمون رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی اطاعت بھی فقط معروف میں رکھی ہے اور معروف ہی طاعت ہے۔
سیدنا ابن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دیکھ لو کہ بہترین خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا حکم بھی معروف میں ہی ہے، اس بیعت والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا اقرار بھی لیا تھا جیسے سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں پہلے گزر چکا، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس بیعت میں یہ بھی تھا کہ عورتیں غیر محرموں سے بات چیت نہ کریں، اس پر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر پر موجود نہیں ہوتے اور مہمان آ جاتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”میری مراد ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت سے نہیں، میں ان سے کام کی بات کرنے سے نہیں روکتا“[تفسیر ابن جریر الطبری:34014:مرسل]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقعہ پر عورتوں کو نامحرم مردوں سے باتیں کرنے سے منع فرمایا [تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف] اور فرمایا بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں کہ پرائی عورتوں سے باتیں کرنے میں ہی مزہ لیا کرتے ہیں یہاں تک کہ مذی نکل جاتی ہے۔
اوپر حدیث بیان ہو چکی ہے کہ نوحہ نہ کرنے کی شرط پر ایک عورت نے کہا فلاں قبیلے کی عورتوں نے میرا ساتھ دیا ہے تو ان کے نوحے میں میں بھی ان کا ساتھ دے کر بدلہ ضرور اتاروں گی چنانچہ وہ گئیں بدلہ اتارا پھر آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جن کا نام ان عورتوں میں ہے جنہوں نے نوحہ نہ کرنے کی بیعت کو پورا کیا یہ ملحان کی بیٹی اور سیدنا انس رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں۔ [صحیح بخاری:4892]
اور روایت میں ہے کہ جس عورت نے بدلے کے نوحے کی اجازت مانگی تھی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی تھی یہی وہ معروف ہے جس میں نافرمانی منع ہے، بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ معروف میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت منہ نہ نوچیں، بال نہ منڈوائیں، کپڑے نہ پھاڑیں، ہائے وائے نہ کریں۔
ابن جریر میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب انصاریہ عورتیں فلاں گھر میں جمع ہوں، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجا آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور سلام کیا ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں ہم نے کہا: رسول اللہ کو بھی مرحبا ہو اور آپ کے قاصد کو بھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں حکم کروں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنے پر، چوری اور زناکاری سے بچنے پر بیعت کرو، ہم نے کہا ہم سب حاضر ہیں اور اقرار کرتی ہیں، چنانچہ آپ نے وہیں باہر کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ اندر کی طرف بڑھا دیا اور ہم نے اپنے ہاتھ اندر سے اندر ہی اندر بڑھائے، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہے۔
پھر حکم ہوا کہ دونوں عیدوں میں ہم اپنی خانضہ عورتوں اور جوان کنواری لڑکیوں کو لے جایا کریں، ہم پر جمعہ فرض نہیں، ہمیں جنازوں کے ساتھ نہ جانا چاہیئے۔ اسماعیل راوی حدیث فرماتے ہیں میں نے اپنی دادی صاحبہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ عورتیں معروف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا یہ کہ نوحہ نہ کریں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34029:ضعیف]
بخاری و مسلم میں ہے کہ جو کوئی مصیبت کے وقت اپنے گالوں پر تھپڑ مارے، دامن چاک کرے اور جاہلیت کے وقت کی ہائی دہائی مچائے، وہ ہم میں سے نہیں [صحیح بخاری:1294]
اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں، جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہائے وائے کرے، بال نوچے یا منڈوائے اور کپڑے پھاڑے یا دامن چیرے ۔ [صحیح مسلم:104]
ابویعلی میں ہے کہ میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جنہیں وہ نہ چھوڑیں گے، حسب نسب پر فخر کرنا، انسان کو اس کے نسب کا طعنہ دینا، ستاروں سے بارش طلب کرنا اور میت پر نوحہ کرنا اور فرمایا: ”نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کئے مر جائے تو اسے قیامت کے دن گندھک کا پیراہن پہنایا جائے گا اور کھجلی کی چادر اڑھائی جائے گی“۔ [صحیح مسلم:934]
ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والیوں پر اور نوحے کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی ، [سنن ابوداود:3128،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے، یہ حدیث ترمذی کی کتاب التفسیر میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ [سنن ابن ماجہ:1579،قال الشيخ الألباني:حسن]