قرآن کریم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فی الواقع یہ پاک کتاب اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ دل اس کے سامنے جھک جائیں، رونگٹے کھڑے ہو جائیں، کلیجے کپکپائیں، اس کے سچے وعدے اور اس کی حقانی ڈانٹ ڈپٹ ہر سننے والے کو بید کی طرح تھرا دے، اور دربار اللہ میں سر بسجود کرا دے، اگر یہ قرآن جناب باری کسی سخت بلند اور اونچے پہاڑ پر بھی نازل فرماتا اور اسے غور و فکر اور فہم و فراست کی حس بھی دیتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا، پھر انسانوں کے دلوں پر جو نسبتاً بہت نرم اور چھوٹے ہیں۔ جنہیں پوری سمجھ بوجھ ہے، اس کا بہت بڑا اثر پڑنا چاہیئے۔
ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے ان کے غور و فکر کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا، مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو بھی ڈر اور عاجزی چاہیئے۔
متواتر حدیث میں ہے کہ منبر تیار ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بن گیا، بچھ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور وہ تنا دور ہو گیا، تو اس میں سے رونے کی آواز آنے لگی اور اس طرح سسکیاں لے لے کر وہ رونے لگا جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہو اور اسے چپ کرایا جا رہا ہو کیونکہ وہ ذکر وحی کے سننے سے کچھ دور ہو گیا تھا۔ [طبرانی کبیر:60/1]
امام بصریٰ رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے تھے کہ ”لوگو ایک کھجور کا تنا اس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شائق ہو تو تمہیں چاہیئے کہ اس سے بہت زیادہ شوق اور چاہت تم رکھو۔“[صحیح بخاری:3583]
اسی طرح کی یہ آیت ہے «لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا»[59-الحشر:21] کہ ” جب ایک پہاڑ کا یہ حال ہو تو تمہیں چاہیئے کہ تم تو اس حالت میں اس سے آگے رہو۔ “
اور جگہ فرمانِ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے «وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ»[13-الرعد:31] یعنی ” اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے باعث پہاڑ چلا دیئے جائیں یا زمین کاٹ دی جائے یا مردے بول پڑیں “(تو اس کے قابل یہی قرآن تھا، مگر پھر بھی ان کفار کو ایمان نصیب نہ ہوتا)۔
اور جگہ فرمان عالی شان ہے «وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ» [2-البقرة:74] ، یعنی ” بعض پتھر ایسے ہیں جن میں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، بعض وہ ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلتا ہے، بعض اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔“
پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی پالنے اور پرورش کرنے والا ہے، نہ اس کے سوا کسی کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اس کی کسی قسم کی عبادت کوئی کرے اس کے سوا جن جن کی لوگ پرستش اور پوجا کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں، وہ تمام کائنات کا علم رکھنے والا ہے، جو چیزیں ہم پر ظاہر ہیں اور جو چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں سب اس پر عیاں ہیں، خواہ آسمان میں ہوں، خواہ زمین میں ہوں، خواہ چھوٹی ہوں، خواہ بڑی ہوں، یہاں تک کہ اندھیریوں کے ذرے بھی اس پر ظاہر ہیں، وہ اتنی بڑی وسیع رحمت والا ہے کہ اس کی رحمت تمام مخلوق پر محیط ہے، وہ دنیا اور آخرت میں رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ ہماری تفسیر کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے۔
قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ»[7-الأعراف:156] یعنی ” میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے۔ “
اور جگہ فرمان ہے «كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ»[6-الأنعام:54] یعنی ” تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحم و رحمت لکھ لی ہے۔“
اور فرمان ہے «قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ»[10-يونس:58] ” کہدو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ ہی خوش ہونا چاہیئے تمہاری جمع کردہ چیز سے بہتر یہی ہے۔ “