ایک حدیث میں ہے جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہو گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33883]
پھر مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جیسے کہ سورۃ برات میں ہے «وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ»[9-التوبة:100] یعنی ” اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں۔ “ یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں۔
اس دعا سے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لیے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں“، پھر یہی آیت «وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ»[59-الحشر:10] آپ نے تلاوت فرمائی۔ [ابن ابی حاتم:ضعیف]
اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ امت ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے [بغوی فی التفسیر:321/4:اسنادہ ضعیف]
ابوداؤد میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا «وَمَا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَـكِنَّ اللَّـهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ» [59-الحشر:6] میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
اسی طرح اس کے بعد کی «مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ»[59-الحشر:7] والی نے عام کر دیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کر لیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے، اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے۔ [سنن ابوداود:2966،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن جریر میں ہے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے «نَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ»[9-التوبة:60] تک پڑھ کر فرمایا ”مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں۔“
پھر «وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ»[8-الأنفال:41] والی پوری آیت کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں۔
پھر یہ «مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ»[59-الحشر:7] پڑھ کر فرمایا ”مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کر دیا ہے، سب اس کے مستحق ہیں۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چرواہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لیے پسینہ تک نہ آیا ہو۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:33861:صحیح]