اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تقدیس تمجید تکبیر توحید میں مشغول ہے۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا»[17-الإسراء:44] یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور ثناء خوانی کرتی ہے، وہ غلبہ والا اور بلند جناب والا اور عالی سرکار والا ہے اور اپنے تمام احکام و فرمان میں حکمت والا ہے۔ جس نے اہل کتاب کے کافروں یعنی قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکالا۔
اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے صلح کر لی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں، نہ یہ آپ سے لڑیں، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہاں سے نکال دیا، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا، خود یہ یہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی یہ سب چیزیں یونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آ گئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا۔
بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ، اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ اٹھا لیں، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔
اس واقعہ کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کا انجام دیکھو اور اس سے عبرت حاصل کرو کہ کس طرح ان پر عذاب الٰہی اچانک آ پڑا اور دنیا میں بھی تباہ و برباد کئے گئے اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ہو گئے اور درد ناک عذاب میں جا پڑے۔
ابوداؤد میں ہے کہ ابن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو جو قبیلہ اوس و خزرج میں سے تھے کفار قریش نے خط لکھا یہ خط انہیں حضور علیہ السلام کے میدان بدر سے واپس لوٹنے سے پہلے مل گیا تھا اس میں تحریر تھا کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں ٹھہرایا ہے پس یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال کر باہر کرو یا ہم تمہیں نکال دیں گے اور اپنے تمام لشکروں کو لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے تمام لڑنے والوں کو ہم تہ تیغ کر دیں گے اور تمہاری عورتوں، لڑکیوں کو لونڈیاں بنا لیں گے اللہ کی قسم یہ ہو کر ہی رہے گا اب تم سوچ سمجھ لو۔
عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں نے اس خط کو پا کر آپس میں مشورہ کیا اور خفیہ طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کی تجویز بالاتفاق منظور کر لی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو آپ خود ان کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریشیوں کا خط کام کر گیا اور تم لوگ اپنی موت کے سامان اپنے ہاتھوں کرنے لگے ہو، تم اپنی اولادوں اور اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا چاہتے ہو میں تمہیں پھر ایک مرتبہ موقع دیتا ہوں کہ سوچ سمجھ لو اور اپنے اس بد ارادے سے باز آؤ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے ان پر اثر کیا اور وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے لیکن قریش نے بدر سے فارغ ہو کر انہیں پھر ایک خط لکھا اور اسی طرح دھمکایا انہیں ان کی قوت ان کی تعداد اور ان کے مضبوط قلعے یاد دلائے مگر یہ پھر اکڑ میں آ گئے اور بنو نضیر نے صاف طور پر بدعہدی پر کمر باندھ لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تیس آدمی لے کر آیئے ہم میں سے بھی تیس ذی علم آدمی آتے ہیں، ہمارے تمہارے درمیان کی جگہ پر یہ ساٹھ آدمی ملیں اور آپس میں بات چیت ہو اگر یہ لوگ آپ کو سچا مان لیں اور ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔
اس بدعہدی کی وجہ سے دوسرے دن صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لشکر لے جا کر ان کا محاصرہ کر لیا اور ان سے فرمایا کہ اب اگر تم نئے سرے سے امن و امان کا عہد و پیمان کرو تو خیر ورنہ تمہیں امن نہیں۔
انہوں نے صاف انکار کر دیا اور لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے، چنانچہ دن بھر لڑائی ہوتی رہی، دوسری صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر بڑھے اور بنو نضیر کو یونہی چھوڑا ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم نئے سرے سے عہد و پیمان کرو۔ انہوں نے منظور کر لیا اور معاہدہ ہو گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے فارغ ہو کر پھر بنو نضیر کے پاس آئے لڑائی شروع ہوئی، آخر یہ ہارے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تم مدینہ خالی کر دو جو اسباب لے جانا چاہو اور اونٹوں پر لاد کر لے جاؤ چنانچہ انہوں نے گھربار کا اسباب یہاں تک کہ دروازے اور لکڑیاں بھی اونٹوں پر لادیں اور جلا وطن ہو گئے، ان کے کھجوروں کے درخت خاصتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گئے اللہ تعالیٰ نے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دلوا دیئے۔
جیسے آیت «وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ»[59-الحشر:6] میں ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا وہاں انصاریوں میں سے صرف دو ہی حاجت مندوں کو حصہ دیا باقی سب مہاجرین میں تقسیم کر دیا۔ تقسیم کے بعد جو باقی رہ گیا تھا یہی وہ مال تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا اور جو بنو فاطمہ کے ہاتھ لگا۔ [سنن ابوداود:2590،قال الشيخ الألباني:صحیح]
غزوہ بنو نضیر کا مختصر قصہ اور سبب یہ ہے کہ مشرکوں نے دھوکہ بازی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیئر معونہ میں شہید کر دیا ان کی تعداد ستر تھی ان میں سے ایک سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بچ کر بھاگ نکلے، مدینہ شریف کی طرف آئے، آتے آتے موقعہ پا کر انہوں نے قبیلہ بنو عامر کے دو شخصوں کو قتل کر دیا حالانکہ یہ قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر چکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امن و امان دے رکھا تھا لیکن اس کی خبر عمرو رضی اللہ عنہ کو نہ تھی۔
جب یہ مدینے پہنچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے انہیں قتل کر ڈالا اب مجھے ان کے وارثوں کو دیت یعنی جرمانہ قتل ادا کرنا پڑے گا۔“
بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے تاکہ کچھ یہ دیں کچھ آپ دیں اور بنو عامر کو راضی کر لیا جائے۔ قبیلہ بنو نضیر کی گڑھی مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پہنچے تو انہوں نے کہا: ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں، ابھی ابھی جمع کر کے اپنے حصے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں۔
ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر یہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس سے بہتر موقعہ کب ہاتھ لگے گا۔ اس وقت آپ قبضے میں ہیں آؤ کام تمام کر ڈالو، چنانچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ پر پھینک دے کہ آپ دب جائیں، عمرو بن مجاش بن کعب اس کام پر مقرر ہوا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے، اتنے میں اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ہٹ گئے اور یہ بدباطن اپنے برے ارادے میں ناکام رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت چند صحابہ رضی اللہ عنہم تھے مثلاً ابوبکر صدیق، عمر فاروق، علی رضی اللہ عنہم وغیرہ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے فوراً مدینہ شریف کی طرف چل پڑے، ادھر جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے انہیں دیر لگنے کے باعث خیال ہوا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے لیکن ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف پہنچ گئے ہیں چنانچہ یہ لوگ وہیں آئے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا واقعہ ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قصہ کہہ سنایا اور حکم دیا کہ جہاد کی تیاری کرو مجاہدین نے کمریں باندھ لیں اور اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ یہودیوں نے لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعہ کے پھاٹک بند کر دیئے اور پناہ گزین ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کر لیا پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں وہ کاٹ دیئے جائیں اور جلا دیئے جائیں، اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے پھر یہ کیا ہونے لگا؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم، ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی۔
کمک کا واقعہ یہ ہے کہ بنو عوف بن خزرج کا قبیلہ جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور ودیعہ بن مالک، ابن ابوقوقل اور سوید اور داعس وغیرہ تھے ان لوگوں نے بنو نضیر کو کہلوا بھیجا تھا کہ تم مقابلے پر جمے رہو اور قلعہ خالی نہ کرو ہم تمہاری مدد پر ہیں تمہارا دشمن ہمارا دشمن ہے، ہم تمہارے ساتھ مل کر اس سے لڑیں گے اور اگر تم نکلے تو ہم بھی نکلیں گے، لیکن اب تک ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کی کوئی مدد نہ کی، ادھر ان کے دل مرعوب ہو گئے تو انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ! ہماری جان بخشی کیجئے ہم مدینہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہم اپنا جو مال اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں وہ ہمیں دے دیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر رحم کھا کر ان کی یہ درخواست منظور فرما لی اور یہ لوگ یہاں سے چلے گئے جاتے وقت اپنے دروازں تک کو اکھیڑ کر لے گئے گھروں کو گرا گئے اور شام اور خیبر میں جا کر آباد ہو گئے، ان کے باقی کے اہل خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گئے کہ آپ جس طرح چاہیں انہیں خرچ کریں چنانچہ آپ نے مہاجرین اولین کو یہ مال تقسیم کر دیا، ہاں انصار میں سے صرف دو شخصوں کو یعنی سہل بن حنیف اور ابودجانہ سماک بن خرشہ کو دیا اس لیے کہ یہ دونوں حضرات مساکین تھے۔
بنو نضیر میں سے صرف دو شخص مسلمان ہوئے جن کے مال انہی کے پاس رہے ایک تو یامین بن عمیر رضی اللہ عنہ جو عمرو بن حجاش کے چچا کے لڑکے کا لڑکا تھا یہ عمرو وہ ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے کا بیڑا اٹھایا تھا، دوسرے ابوسعد بن وہب رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یامین رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے یامین! تیرے اس چچا زاد بھائی نے دیکھ تو میرے ساتھ کس قدر برا برتاؤ برتا اور مجھے نقصان پہنچانے کی کس بے باکی سے کوشش کی؟ یامین رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کچھ دینار دے کر عمرو کو قتل کرا دیا۔ سورۃ الحشر اسی واقعہ بنو نضیر کے بارے میں اتری ہے۔ [سیرۃ ابن ھشام:101/3:مرسل]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جسے اس میں شک ہو کہ محشر کی زمین شام کا ملک ہے وہ اس آیت کو پڑھ لے۔ ان یہودیوں سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ۔ تو انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محشر کی زمین کی طرف نکل جاؤ۔“[مسند بزار:3426:ضعیف]
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33821:مرسل]
بنو نضیر کے ان قلعوں کا محاصرہ صرف چھ روز رہا تھا، محاصرین کو قلعہ کی مضبوطی، یہودیوں کی زیادتی، یکجہتی، منافقین کی سازشیں اور خفیہ چالیں وغیرہ دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہ تھا کہ اس قدر جلد یہ قلعہ خالی کر دیں گے ادھر خود یہود بھی اپنے قلعہ کی مضبوطی پر نازاں تھے اور جانتے تھے کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں، لیکن امر اللہ ایسی جگہ سے آ گیا جو ان کے خیال میں بھی نہ تھی، یہی دستور اللہ کا ہے کہ مکار اپنی مکاری میں ہی رہتے ہیں اور بےخبر ان پر عذاب الٰہی آ جاتا ہے، ان کے دلوں میں رعب چھا گیا بھلا رعب کیوں نہ چھاتا محاصرہ کرنے والے وہ تھے جنہیں اللہ کی طرف سے رعب دیا گیا تھا کہ دشمن مہینہ بھر کی راہ پر ہو اور وہیں اس کا دل دہلنے لگا تھا۔ «صلوات اللہ وسلامہ علیہ»
یہودی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے چھتوں کی لکڑی اور دروازے لے جانے کے لیے توڑنے پھوڑنے شروع کر دیئے، مقاتل فرماتے ہیں مسلمانوں نے بھی ان کے گھر توڑے اس طرح کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے جو جو مکانات وغیرہ قبضے میں آتے گئے میدان کشادہ کرنے کے لیے انہیں ڈھاتے گئے، اسی طرح خود یہود بھی اپنے مکانوں کو آگے سے تو محفوظ کرتے جاتے تھے اور پیچھے سے نقب لگا کر نکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے۔
پھر فرماتا ہے، ” اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔“
اگر ان یہودیوں کے مقدر میں جلا وطنی نہ ہوتی تو انہیں اس سے بھی سخت عذاب دیا جاتا، یہ قتل ہوتے اور قید کر لیے جاتے وغیرہ وغیرہ، پھر آخرت کے بدترین عذاب بھی ان کے لیے تیار ہیں۔
بنو نضیر کی یہ لڑائی جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوئی، مال جو اونٹوں پر لد جائیں انہیں لے جانے کی اجازت تھی مگر ہتھیار لے جانے کی اجازت نہ تھی، یہ اس قبیلے کے لوگ تھے جنہیں اس سے پہلے کبھی جلا وطنی ہوئی ہی نہ تھی بقول سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شروع سورت سے «فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ»[59-الحشر:5] تک آیتیں اسی واقعہ کے بیان میں نازل ہوئی ہیں۔
«جَلَاءَ» کے معنی قتل و فنا کے بھی کئے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلا وطنی کے وقت تین تین میں ایک ایک اونٹ اور ایک ایک مشک دی تھی، اس فیصلہ کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا تھا اور انہیں اجازت دی تھی کہ تین دن میں اپنا سامان ٹھیک کر کے چلے جائیں۔ اس دنیوی عذاب کے ساتھ ہی اخروی عذاب کا بھی بیان ہو رہا ہے کہ وہاں بھی ان کے لیے حتمی اور لازمی طور پر جہنم کی آگ ہے۔
ان کی اس درگت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کیا اور ایک اعتبار سے تمام نبیوں کو جھٹلایا اس لیے کہ ہر نبی نے آپ کی بابت پیش گوئی کی تھی، یہ لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے بلکہ اولاد کو ان کا باپ جس قدر پہچانتا ہے اس سے بھی زیادہ یہ لوگ نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے تھے لیکن تاہم سرکشی اور حسد کی وجہ سے مانے نہیں، بلکہ مقابلے پر تل گئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مخالفوں پر سخت عذاب نازل فرماتا ہے۔
«لِیْنَهُ» کہتے ہیں اچھی کھجوروں کے درختوں کو عجوہ اور برفی جو کھجور کی قسمیں ہیں بقول بعض وہ «لِیْنَهُ» میں داخل نہیں اور بعض کہتے ہیں صرف عجوہ نہیں اور بعض کہتے ہیں ہر قسم کی کھجوریں اس میں داخل ہیں جن میں بویرہ بھی داخل ہے، یہودیوں نے جو بطور طعنہ کے کہا تھا کہ کھجوروں کے درخت کٹوا کر اپنے قول کے خلاف فعل کر کے زمین میں فساد کیوں پھیلاتے ہیں؟ یہ اس کا جواب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکم رب سے اور اجازت اللہ سے دشمنان اللہ کو ذلیل و ناکام کرنے اور انہیں پست و بدنصیب کرنے کے لیے ہو رہا ہے جو درخت باقی رکھے جائیں وہ اجازت سے اور جو کاٹے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت کے ساتھ۔
یہ بھی مروی ہے کہ بعض مہاجرین نے بعض کو ان درختوں کے کاٹنے سے منع کیا تھا کہ آخر کار تو یہ مسلمانوں کو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انہیں کیوں کاٹا جائے؟ جس پر یہ آیت اتری کہ روکنے والے بھی حق بجانب ہیں اور کاٹنے والے بھی برحق ہیں ان کی نیت مسلمانوں کے نفع کی ہے اور ان کی نیت کافروں کو غیظ و غضب میں لانے اور انہیں ان کی شرارت کا مزہ چکھانے کی ہے۔
اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس سے جل کر وہ غصے میں پھر کر میدان میں آئیں تو پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں اور اعداء دین کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ فعل کر تو لیا پھر ڈرے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے میں یا باقی چھوڑنے میں اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ ہو تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ [مسند ابویعلیٰ:2189:ضعیف]
یعنی دونوں باتوں پر اجر ہے کاٹنے پر بھی اور چھوڑنے پر بھی، بعض روایتوں میں ہے کٹوائے بھی تھے اور جلوائے بھی تھے۔ [صحیح بخاری:4032]
بنو قریظہ کے یہودیوں پر اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کیا اور ان کو مدینہ شریف میں ہی رہنے دیا لیکن بالآخر جب یہ بھی مقابلے پر آئے اور منہ کی کھائی تو ان کے لڑنے والے مرد تو قتل کئے گئے اور عورتیں، بچے اور مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہاں جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور ایمان لائے وہ بچ رہے، پھر مدینہ سے تمام یہودیوں کو نکال دیا بنو قینقاع کو بھی جن میں سے عبداللہ بن سلام تھے اور بنو حارثہ کو بھی اور کل یہودیوں کو جلا وطن کیا۔ [صحیح بخاری:4028]
ان تمام واقعات کو عرب شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی نہایت خوبی سے ادا کیا ہے، جو سیرۃ ابن اسحاق میں مروی ہیں یہ واقعہ بقول ابن اسحاق کے احد اور بیر معونہ کے بعد کا ہے اور بقول عروہ رحمہ اللہ بدر کے چھ مہینے بعد کا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»