آداب مجلس باہم معاملات اور علمائے حق و باعمل کی توقیر ٭٭
یہاں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مجلسی آداب سکھاتا ہے۔ انہیں حکم دیتا ہے کہ نشست و برخاست میں بھی ایک دوسرے کا خیال و لحاظ رکھو۔ تو فرماتا ہے کہ جب مجلس جمع ہو اور کوئی آئے تو ذرا ادھر ادھر ہٹ ہٹا کر اسے بھی جگہ دو۔ مجلس میں کشادگی کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی دے گا۔ اس لیے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے مسجد بنا دے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنا دے گا۔ [صحیح بخاری:450]
ایک اور حدیث میں ہے کہ جو کسی سختی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ تعالیٰ خود اپنے اس بندے کی مدد پر رہتا ہے۔ [صحیح مسلم:2699] اور بھی اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔
قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مجلس ذکر کے بارے میں اتری ہے مثلاً وعظ ہو رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نصیحت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں، اب جو دوسرا کوئی آیا تو کوئی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا تاکہ اسے بھی جگہ مل جائے، قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسا نہ کرو ادھر ادھر کھل جایا کرو تاکہ آنے والے کی جگہ ہو جائے۔
مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن یہ آیت اتری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن صفہ میں تھے یعنی مسجد کے ایک چھپر تلے جگہ تنگ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جو مہاجر اور انصاری بدر کی لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے آپ ان کی بڑی عزت اور تکریم کیا کرتے تھے، اس دن اتفاق سے چند بدری صحابہ رضی اللہ عنہم دیر سے آئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کھڑے ہو گئے، آپ سے سلام علیک ہوئی، آپ نے جواب دیا پھر اور اہل مجلس کو سلام کیا، انہوں نے بھی جواب دیا، اب یہ اسی امید پر کھڑے رہے کہ مجلس میں ذرا کشادگی دیکھیں تو بیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جو ان کیلئے جگہ ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو نہ رہا گیا، نام لے لے کر بعض لوگوں کو ان کی جگہ سے کھڑا کیا اور ان بدری صحابیوں کو بیٹھنے کو فرمایا، جو لوگ کھڑے کرائے گئے تھے انہیں ذرا بھاری پڑا ادھر منافقین کے ہاتھ میں ایک مشغلہ لگ گیا، کہنے لگے، لیجئے یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جو لوگ شوق سے آئے، پہلے آئے، اپنے نبی کے قریب جگہ لی، اطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، انہیں تو ان کی جگہ سے کھڑا کر دیا اور دیر سے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوا دی کس قدر ناانصافی ہے، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ان کے دل میلے نہ ہوں دعا کی کہ اللہ اس پر رحم کرے جو اپنے مسلمان بھائی کیلئے مجلس میں جگہ کر دے۔ اس حدیث کو سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے فوراً خود بخود اپنی جگہ سے ہٹنا اور آنے والوں کو جگہ دینا شروع کر دیا اور جمعہ ہی کے دن یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:244/23:مرسل]
بخاری، مسلم، مسند وغیرہ میں حدیث ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے ہٹا کر وہاں نہ بیٹھے بلکہ تمہیں چاہیئے کہ ادھر ادھر سرک کر اس کیلئے جگہ بنا دو۔ [صحیح بخاری:911]
مسند شافعی میں ہے، تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے بلکہ کہہ دے کہ گنجائش کرو۔ [مسند شافعی:159/1ضعیف]
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ کسی آنے والے کیلئے کھڑے ہو جانا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ تو اجازت دیتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ۔ ”[صحیح بخاری:2550]
بعض علماء منع کرتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوں وہ جہنم میں اپنی جگہ بنا لے۔ [سنن ترمذي:2755،قال الشيخ الألباني:حسن]
بعض بزرگ تفصیل بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سفر سے اگر کوئی آیا ہو تو حاکم کیلئے عہدہ حکمرانی کے سبب لوگوں کا کھڑے ہو جانا درست ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کیلئے کھڑا ہونے کو فرمایا تھا یہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے۔ بنو قریظہ کے آپ حاکم بنائے گئے تھے جب انہیں آتا ہوا دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور یہ (بطور تعظیم کے نہ تھا بلکہ) صرف اس لیے تھا کہ ان کے احکام کو بخوبی جاری کرائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ہاں اسے عادت بنا لینا کہ مجلس میں جہاں کوئی بڑا آدمی آیا اور لوگ کھڑے ہو گئے یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، سنن کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب اور باعزت کوئی نہ تھا لیکن تاہم آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے، جانتے تھے کہ آپ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ [سنن ترمذي:2754،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سنن کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی مجلس کے خاتمہ پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور جہاں آپ تشریف فرما ہو جاتے وہی جگہ صدارت کی جگہ ہو جاتی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے مراتب کے مطابق مجلس میں بیٹھ جاتے۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے آپ دائیں جانب، سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بائیں اور عموماً سیدنا عثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے بیٹھتے تھے کیونکہ یہ دونوں بزرگ کاتب وحی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے اور یہ وحی کو لکھ لیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ مجھ سے قریب ہو کر عقلمند، صاحب فراست لوگ بیٹھیں پھر درجہ بدرجہ۔ [صحیح مسلم:432]
اور یہ انتظام اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات یہ حضرات سنیں اور بخوبی سمجھیں، یہی وجہ تھی کہ صفہ والی مجلس میں جس کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے آپ نے اور لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹا کر وہ جگہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کو دلوائی، گو اس کے ساتھ اور وجوہات بھی تھیں مثلاً ان لوگوں کو خود چاہیئے تھا کہ ان بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال کرتے اور لحاظ و مروت برت کر خود ہٹ کر انہیں جگہ دیتے، جب انہوں نے از خود ایسا نہیں کیا تو پھر حکماً ان سے ایسا کرایا گیا، اسی طرح پہلے کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے کلمات پوری طرح سن چکے تھے اب یہ حضرات آئے تھے تو آپ نے چاہا کہ یہ بھی باآرام بیٹھ کر میری حدیثیں سن لیں اور دینی تعلیم حاصل کر لیں، اسی طرح امت کو اس بات کی تعلیم بھی دینی تھی کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو امام کے پاس بیٹھنے دیں اور انہیں اپنے سے مقدم رکھیں۔
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی صفوں کی درستی کے وقت ہمارے مونڈھے خود پکڑ پکڑ کر ٹھیک ٹھاک کرتے اور زبانی بھی فرماتے جاتے سیدھے رہو، ٹیڑھے ترچھے نہ کھڑے ہوا کرو، دانائی اور عقلمندی والے مجھ سے بالکل قریب رہیں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے اس حکم کے باوجود افسوس کہ اب تم بڑی ٹیڑھی صفیں کرتے ہو۔ [صحیح مسلم:432]
مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ظاہر ہے کہ جب آپ کا یہ حکم نماز کیلئے تھا تو نماز کے سوا کسی اور وقتوں میں تو بطور اولیٰ یہی حکم رہے گا، ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صفوں کو درست کرو، مونڈھے ملائے رکھو، صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو، اپنے بھائیوں کے پاس صف میں نرم بن جایا کرو، صف میں شیطان کیلئے سوراخ نہ چھوڑو صف ملانے والے کو اللہ تعالیٰ ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ کاٹ دیتا ہے۔ [سنن ابوداود:666،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اسی لیے سید القراء سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جب پہنچتے تو صف اول میں سے کسی ضعیف العقل شخص کو پیچھے ہٹا دیتے اور خود پہلی صف میں کھڑے ہو جاتے اور اسی حدیث کو دلیل میں لاتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”مجھ سے قریب ذی رائے اور اعلیٰ عقلمند کھڑے ہوں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔“[مسند احمد:140/5:صحیح]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کھڑا ہو جاتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے۔ [صحیح بخاری:6280]
اور اس حدیث کو پیش کرتے جو اوپر گزری کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں کوئی اور نہ بیٹھے، یہاں بطور نمونے کے یہ چند مسائل اور تھوڑی حدیثیں لکھ کر ہم آگے چلتے ہیں بسط و تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، نہ یہ موقع ہے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے ایک تو مجلس کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر وہاں آ کر بیٹھ گئے دوسرے نے مجلس کے آخر میں جگہ بنا لی تیسرے واپس چلے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں تمہیں تین شخصوں کی بابت خبر دوں، ایک نے تو اللہ کی طرف جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دی، دوسرے نے شرم کی۔ اللہ نے بھی اس سے حیاء کی، تیسرے نے منہ پھیر لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔“[صحیح بخاری:66]
مسند احمد میں ہے کہ کسی کو حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان تفریق کرے، ہاں ان کی خوشنودی سے ہو تو اور بات ہے۔ [سنن ابوداود:4845،قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں مجلسوں کی کشادگی کا حکم جہاد کے بارے میں ہے، اسی طرح اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی جہاد کے بارے میں ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی جب تمہیں بھلائی اور کارخیر کی طرف بلایا جائے تو تم فوراً آ جاؤ، مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں نماز کیلئے بلایا جائے تو اٹھ کھڑے ہو جایا کرو، عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتے تو جاتے وقت ہر ایک کی چاہت یہ ہوتی کہ سب سے آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا میں ہوں، بسا اوقات آپ کو کوئی کام کاج ہوتا تو بڑا حرج ہوتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروت سے کچھ نہ فرماتے اس پر یہ حکم ہوا کہ جب تم سے کھڑے ہونے کو کہا جائے تو کھڑے ہو جایا کرو، جیسے اور جگہ ہے «وَإِن قيلَ لَكُمُ ارجِعوا فَارجِعوا هُوَ أَزكىٰ لَكُم وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ عَليمٌ»[24-النور:28] ” اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ “۔
پھر فرماتا ہے کہ مجلسوں میں جگہ دینے کو جب کہا جائے تو جگہ دینے میں اور جب چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جانے میں اپنی ہتک نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبہ بلند کرنا اور اپنی توقیر کرانا ہے، اسے اللہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس پر دنیا اور آخرت میں نیک بدلہ دے گا، جو شخص احکام الٰہیہ پر تواضع سے گردن جھکا دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور اس کی شہرت نیکی کے ساتھ کرتا ہے۔ ایمان والوں اور صحیح علم والوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے گردن جھکا دیا کریں اور اس سے وہ بلند درجوں کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ بلند مرتبوں کا مستحق کون ہے اور کون نہیں؟
نافع بن عبدالحارث رحمہ اللہ سے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ملاقات عسفان میں ہوئی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ کا عامل بنایا تھا تو ان سے پوچھا کہ تم مکہ میں اپنی جگہ کسے چھوڑ آئے ہو؟ جواب دیا کہ ابن ابزیٰ کو، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ تو ہمارے مولیٰ ہیں یعنی آزاد کردہ غلام، انہیں تم اہل مکہ کا امیر بنا کر چلے آئے ہو؟ کہا: ہاں، اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کا ماہر اور فرائض کا جاننے والا اور اچھا وعظ کہنے والا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت فرمایا: سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے ایک قوم کو عزت پر پہنچا کر بلند مرتبہ کرے گا اور بعض کو پست و کم مرتبہ بنا دے گا ۔ [صحیح مسلم:817]
علم اور علماء کی فضیلت، جو اس آیت اور دیگر آیات و احادیث سے ظاہر ہے میں نے ان سب کو بخاری شریف کی کتاب العلم کی شرح میں جمع کر دیا ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»