کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لیے کہ ان میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا، لیکں انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا۔
ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں، ایک رات کو باری والے آ گئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آ گئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہو گئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا؟“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے (یعنی ریاکاری)“ اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف]
پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السَّام عَلَيْك يَا أَبَا الْقَاسِم»، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رہا نہ گیا فرمایا «وَعَلَيْكُمْ السَّام»، «سَّام» کے معنی موت کے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا۔ انہوں نے آپ کو «السلام» نہیں کہا بلکہ «السام» کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نہیں سنا؟ میں نے کہہ دیا «وَعَلَيْكُمْ» ۔“[صحیح مسلم:2165]
اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے جواب میں فرمایا تھا «عَلَیْکُمْ السَّامُ وَالذَّامُ وَاللَّعْنَتَهُ» اور آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کوسنا نامقبول ہے۔ [ابن ابی حاتم وغیرہ] [صحیح بخاری:6030]
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آ کر سلام کیا،صحابہ نے جواب دیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ”معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا؟“ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! سلام کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اس نے کہا تھا «سَام عَلَيْكُمْ» یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آ گیا تو آپ نے فرمایا: ”سچ سچ بتا کیا تو نے «سَام عَلَيْكُمْ» نہیں کہا تھا؟“ اس نے کہا: ہاں، میں نے یہی کہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف «عَلَيْك» کہہ دیا کرو یعنی جو تو نے کہا ہو وہ تجھ پر۔ [سنن ابن ماجہ:3697،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے “۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے، [مسند احمد:170/2:صحیح]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے۔