اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو ظاہر حجتیں اور بھرپور دلائل دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا، پھر ساتھ ہی انہیں کتاب بھی دی جو کھری اور صاف سچی ہے اور عدل و حق دیا جس سے ہر عقلمند انسان ان کی باتوں کے قبول کر لینے پر فطرتاً مجبور ہو جاتا ہے، ہاں بیمار رائے والے اور خلاف عقل والے اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جیسے اور جگہ ہے «اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً»[11-ھود:17] ” جو شخص اپنے رب کی طرف دلیل پر ہو اور ساتھ ہی اس کے شاہد بھی ہو۔“
ایک اور جگہ ہے «فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا»[30-الروم:30] ” اللہ کی یہ فطرت ہے جس پر مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے۔ “
اور فرماتا ہے «وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ»[55-الرحمن:7] ” آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان رکھ دی۔ “
پس یہاں فرمان ہے یہ اس لیے کہ لوگ حق و عدل پر قائم ہو جائیں، یعنی اتباع رسول کرنے لگیں امر رسول بجا لائیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تمام باتوں کو حق سمجھیں کیونکہ اس کے سوا حق کسی اور کا کلام نہیں۔
جیسے فرمان ہے «وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ»[6-الانعام:115] ” تیرے رب کا کلمہ جو اپنی خبروں میں سچا اور اپنے احکام میں عدل والا ہے پورا ہو چکا۔“ یہی وجہ ہے کہ جب ایماندار جنتوں میں پہنچ جائیں گے اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہو جائیں گے تو کہیں گے «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّـهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ»[7-الأعراف:43] ” اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی اگر اس کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم اس راہ نہیں لگ سکتے تھے ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے۔“
پھر فرماتا ہے ” ہم نے منکرین حق کی سرکوبی کے لیے لوہا بنایا ہے۔ “ یعنی اولاً تو کتاب و رسول اور حق سے حجت قائم کی پھر ٹیڑھے دل والوں کی کجی نکالنے کے لیے لوہے کو پیدا کر دیا تاکہ اس کے ہتھیار بنیں اور اللہ دوست حضرات، اللہ کے دشمنوں کے دل کا کانٹا نکال دیں، یہی نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل عیاں نظر آتا ہے کہ مکہ شریف کے تیرہ سال مشرکین کو سمجھانے، توحید و سنت کی دعوت دینے، ان کے عقائد کی اصلاح کرنے میں گزارے۔ خود اپنے اوپر مصیبتیں جھیلیں لیکن جب یہ حجت ختم ہو گئی تو شرع نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دی، پھر حکم دیا کہ اب ان مخالفین سے جنہوں نے اسلام کی اشاعت کو روک رکھا ہے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا ہے ان کی زندگی دو بھر کر دی ہے ان سے باقاعدہ جنگ کرو، ان کی گردنیں مارو اور ان مخالفین وحی الٰہی سے زمین کو پاک کرو۔
مسند احمد اور ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”میں قیامت کے آگے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، یہاں تک کہ اللہ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کی ہی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے رکھا گیا ہے اور کمینہ پن اور ذلت ان لوگوں پر ہے جو میرے حکم کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے“۔ [سنن ابوداود:4031،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
پس لوہے سے لڑائی کے ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزے، چھریاں، تیز زرہیں وغیرہ اور لوگوں کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں۔ جیسے سکے، کدال، پھاوڑے، آرے، کھیتی کے آلات، بننے کے آلات، پکانے کے برتن، توے وغیرہ وغیرہ اور بھی بہت سی ایسی ہی چیزیں جو انسانی زندگی کی ضروریات سے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”تین چیزیں آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے آئیں نہائی، سنی اور ہتھوڑا۔ [ابن جریر]
پھر فرمایا تاکہ اللہ جان لے کہ ان ہتھیاروں کے اٹھانے سے اللہ رسول کی مدد کرنے کا نیک ارادہ کس کا ہے؟ اللہ قوت و غلبہ والا ہے، اس کے دین کی جو مدد کرے وہ اس کی مدد کرتا ہے، دراصل اپنے دین کو وہی قوی کرتا ہے اس نے جہاد تو صرف اپنے بندوں کی آزمائش کے لیے مقرر فرمایا ہے ورنہ غلبہ و نصرت تو اسی کی طرف سے ہے۔