اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کی خبر دے رہا ہے جو اس نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی اپنی مخلوق کی تقدیر مقرر کی تھی، فرمایا کہ زمین کے جس حصے میں کوئی برائی آئے یا جس کسی شخص کی جان پر کچھ آ پڑے اسے یقین رکھنا چاہیئے کہ خلق کی پیدائش سے پہلے ہی یہ علم اللہ میں مقرر تھا اور اس کا ہونا یقینی تھا۔
بعض کہتے ہیں مصیبت کی پیدائش سے پہلے ہے، لیکن زیادہ ٹھیک بات یہ ہے کہ مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہے۔
امام حسن رحمہ اللہ سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمانے لگے سبحان اللہ ہر مصیبت جو آسمان و زمین میں ہے وہ نفس کی پیدائش سے پہلے ہی رب کی کتاب میں موجود ہے اس میں کیا شک ہے؟ زمین کی مصیبتوں سے مراد خشک سالی، قحط وغیرہ ہے اور جانوں کی مصیبت درد دکھ اور بیماری ہے، جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کسی سخت محنت سے پسینہ آ جاتا ہے یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جنہیں وہ غفور و رحیم اللہ بخش دیتا ہے۔ یہ آیت بہترین اور بہت اعلیٰ دلیل ہے قدریہ کی تردید میں جس کا خیال ہے کہ سابق علم کوئی چیز نہیں اللہ انہیں ذلیل کرے۔
صحیح مسلم ہے اللہ تعالیٰ نے تقدیر مقرر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے کی۔ [صحیح مسلم:34]
اور رویات میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا [سنن ترمذي:2156،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے کاموں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کا اندازہ کر لینا، ان کے ہونے کا علم حاصل کر لینا اور اسے لکھ دینا اللہ پر کچھ مشکل نہیں۔ وہی تو ان کا پیدا کرنے والا ہے۔ جس کا محیط علم ہونے والی، ہو رہی، ہو چکی، ہو گی تمام چیزوں کو شامل ہے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے ہم نے تمہیں یہ خبر اس لیے دی ہے کہ تم یقین رکھو کہ جو تمہیں پہنچا وہ ہرگز کسی صورت ٹلنے والا نہ تھا، پس مصیبت کے وقت صبر و شکر تحمل و ثابت قدمی مضبوط ولی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے، ہائے وائے بے صبری اور بےضبطی تم سے دور رہے۔ جزع فزع تم پر چھا نہ جائے تم اطمینان سے رہو کہ یہ تکلیف تو آنے والی تھی ہی، اسی طرح اگر مال دولت غلبہ وغیرہ مل جائے تو اس وقت آپے سے باہر نہ ہو جاؤ، اسے عطیہ الٰہی مانو، تکبر اور غرور تم میں نہ آ جائے، ایسا نہ ہو کہ دولت و مال وغیرہ کے نشے میں پھول جاؤ اور اللہ کو بھول جاؤ اس لیے کہ اس وقت بھی ہماری یہ تعلیم تمہارے سامنے ہو گی کہ یہ میرے دست و بازو کا، میری عقل و ہوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے۔
ایک قرأت اس کی «آتٰکمْ» ہے دوسری «اتٰکُمْ» ہے اور دونوں میں تلازم ہے، اسی لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے دوسروں پر فخر کرنے والے اللہ کے دشمن ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”رنج و راحت، خوشی و غم تو ہر شخص پر آتا ہے خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گزار دو۔“
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخیل اور خلاف شرع کام کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی برا راستہ بتاتے ہیں۔ جو شخص اللہ کی حکم برداری سے ہٹ جائے وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کیونکہ وہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے اور ہر طرح سزا اور حمد ہے۔
جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا «وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ»[14-ابراھیم:8] یعنی ” اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کافر ہو جائیں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ ساری مخلوق سے غنی ہے اور مستحق حمد ہے “۔