تفسير ابن كثير



دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے ٭٭

امر دنیا کی تحقیر و توہین بیان ہو رہی ہے کہ ” اہل دنیا کو سوائے لہو و لعب زینت و فخر اور اولاد و مال کی کثرت کی چاہت کے اور ہے بھی کیا؟“ جیسے اور آیت میں ہے «زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ» [3-آل عمران:14] ‏‏‏‏، یعنی ” لوگوں کے لیے ان کی خواہش کی چیزوں کو مزین کر دیا گیا ہے جیسے عورتیں بچے وغیرہ پھر حیات دنیا کی مثال بیان ہو رہی ہے کہ اس کی تازگی فانی ہے اور یہاں کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔“

«غَيْثٍ» کہتے ہیں اس بارش کو جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد برسے۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ» [42-الشورى:28] ‏‏‏‏، ” اللہ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش برساتا ہے۔ “

پس جس طرح بارش کی وجہ سے زمین سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ لہلہاتی ہوئی کسان کی آنکھوں کو بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں، اسی طرح اہل دنیا اسباب دنیوی پر پھولتے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی ہری بھری کھیتی خشک ہو کر زرد پڑ جاتی ہے پھر آخر سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کی تروتازگی اور یہاں کی بہبودی اور ترقی بھی خاک میں مل جانے والی ہے، دنیا کی بھی یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایک وقت جوان ہے پھر ادھیڑ ہے پھر بڑھیا ہے، ٹھیک اسی طرح خود انسان کی حالت ہے اس کے بچپن جوانی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کو دیکھتے جائیے پھر اس کی موت اور فنا کو سامنے رکھے، کہاں جوانی کے وقت اس کا جوش و خروش زور طاقت اور کس بل؟ اور کہاں بڑھاپے کی کمزوری جھریاں پڑا ہوا جسم خمیدہ کمر اور بےطاقت ہڈیاں؟

جیسے ارشاد باری ہے آیت «اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ» ‏‏‏‏ [30-سورةالروم:54] ‏‏‏‏ ” اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد قوت دی پھر اس وقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کر دیا وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور وہ عالم اور قادر ہے۔“

اس مثال سے دنیا کی فنا اور اس کا زوال ظاہر کر کے پھر آخرت کے دونوں منظر دکھا کر ایک سے ڈراتا ہے اور دوسرے کی رغبت دلاتا ہے۔

پس فرماتا ہے عنقریب آنے والی قیامت اپنے ساتھ عذاب اور سزا کو لائے گی اور مغفرت اور رضا مندی رب کو لائے گی، پس تم وہ کام کرو کہ ناراضگی سے بچ جاؤ اور رضا حاصل کر لو، سزاؤں سے بچ جاؤ اور بخشش کے حقدار بن جاؤ، دنیا صرف دھوکے کی ٹٹی ہے، اس کی طرف جھکنے والے پر آخر وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں کرتا اسی کی دھن میں روز و شب مشغول رہتا ہے بلکہ اس کمی والی اور زوال والی کمینی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتا ہے، شدہ شدہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات آخرت کا منکر بن جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک کوڑے برابر جنت کی جگہ ساری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے ۔ پڑھو قرآن فرماتا ہے کہ دنیا تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:685/11:صحیح] ‏‏‏‏۔ آیت کی زیادتی بغیر یہ حدیث صحیح میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:3250] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.