پھر فرماتا ہے «مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا»[57-الحديد:11] ” کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے۔ “ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا ہے۔
بعض نے کہا ہے بال بچوں کو کھلانا پلانا وغیرہ خرچ مراد ہے ہو سکتا ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو شامل ہو۔
پھر اس پر وعدہ فرماتا ہے کہ ” اسے بہت بڑھا چڑھا کر بدلہ ملے گا اور جنت میں پاکیزہ تر روزی ملے گی۔ “ اس آیت کو سن کر ابودحداح انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا: میرا باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں وہ میں نے اپنے رب کو دیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے بیوی بچے بھی اسی باغ میں تھے آپ آئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی، وہ لبیک کہتی ہوئی آئیں تو فرمانے لگے، بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کو اور گھر کے اثاثے کو لے کر باہر چلی آئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ”جنتی درخت وہاں کے باغات جو میوؤں سے لدے ہوئے اور جن کی شاخیں یاقوت اور موتی کی ہیں ابو دحداح رضی اللہ عنہ کو اللہ نے دے دیں۔“[مسند بزار:402/5:ضعیف]