وہ اللہ جو اپنے بندے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر روشن حجتیں اور بہترین دلائل اور عمدہ تر آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ ظلم و جہل کی گھنگھور گھٹاؤں اور رائے قیاس کی بدترین اندھیریوں سے تمہیں نکال کر نورانی اور روشن صاف اور سیدھی راہ حق پر لا کھڑا کر دے۔ اللہ رؤف ہے ساتھ ہی رحیم ہے یہ اس کا سلوک اور کرم ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کے لیے کتابیں اتاریں، رسول بھیجے، شکوک و شبہات دور کر دیئے، ہدایت کی وضاحت کر دی۔
ایمان اور خیرات کا حکم کر کے پھر ایمان کی رغبت دلا کر اور یہ بیان فرما کر کہ ” ایمان نہ لانے کا اب کوئی عذر میں نے باقی نہیں رکھا “۔
پھر صدقات کی رغبت دلائی، اور فرمایا ” میری راہ میں خرچ کرو اور فقیری سے نہ ڈرو، اس لیے کہ جس کی راہ میں تم خرچ کر رہے ہو وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا تنہا مالک ہے، عرش و کرسی اسی کی ہے اور وہ تم سے اس خیرات کے بدلے انعام کا وعدہ کر چکا ہے۔“
فرماتا ہے «وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ»[34-سبأ:39] ” جو کچھ تم راہ اللہ دو گے اس کا بہترین بدلہ وہ تمہیں دے گا اور روزی رساں درحقیقت وہی ہے۔ “
اور فرماتا ہے «مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ»[16-النحل:96] ” اگر یہ فانی مال تم خرچ کرو گے وہ اپنے پاس کا ہمیشگی والا مال تمہیں دے گا۔“ توکل والے خرچ کرتے رہتے ہیں اور مالک عرش انہیں تنگی ترشی سے محفوظ رکھتا ہے، انہیں اس بات کا اعتماد ہوتا ہے کہ ہمارے فی سبیل اللہ خرچ کردہ مال کا بدلہ دونوں جہان میں ہمیں قطعاً مل کر رہے گا۔
پھر اس امر کا بیان ہو رہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے راہ اللہ خرچ کیا اور جہاد کیا اور جن لوگوں نے یہ نہیں کیا گو بعد فتح مکہ کیا ہو یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بھی کہ اس وقت تنگی ترشی زیادہ تھی اور قوت طاقت کم تھی اور اس لیے بھی کہ اس وقت ایمان وہی قبول کرتا تھا جس کا دل ہر میل کچیل سے پاک ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام کو کھلا غلبہ ملا اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور فتوحات کی وسعت ہوئی ساتھ ہی مال بھی نظر آنے لگا، پس اس وقت اور اس وقت میں جتنا فرق ہے اتنا ہی ان لوگوں اور ان لوگوں کے اجر میں فرق ہے، انہیں بہت بڑے اجر ملیں گے گو دونوں اصل بھلائی اور اصل اجر میں شریک ہیں۔
بعض نے کہا ہے فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ اس کی تائید مسند احمد کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما میں کچھ اختلاف ہو گیا جس میں سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”تم اسی پر اکڑ رہے ہو کہ ہم سے کچھ دن پہلے اسلام لائے۔“ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ کو میرے لیے چھوڑ دو، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے یا کسی اور پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی ان کے اعمال کو پہنچ نہیں سکتے“۔ [مسند احمد:266/3:صحیح]
ظاہر ہے کہ یہ واقعہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہو جانے کے بعد کا ہے اور آپ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے اور یہ اختلاف جس کا ذکر اس روایت میں ہے بنو جذیمہ کے بارے میں ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد خالد کی امارت میں اس کی طرف ایک لشکر بھیجا تھا جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے پکارنا شروع کیا، ہم مسلمان ہو گئے ہم «صابی» ہوئے یعنی بےدین ہوئے، اس لیے کہ کفار مسلمانوں کو یہی لفظ کہا کرتے تھے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے غالباً اس کلمہ کا اصلی مطلب نہ سمجھ کر ان کے قتل کا حکم دے دیا بلکہ ان کے جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہیں قتل کر ڈالنے کا حکم دیا اس پر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کی مخالفت کی اس واقعہ کا مختصر بیان اوپر والی حدیث میں ہے۔
صحیح حدیث میں ہے میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو بھی ان کے تین پاؤ اناج کے ثواب کو نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیڑھ پاؤ کو بھی نہ پہنچے گا ۔ [صحیح بخاری:3673]
ابن جریر میں ہے حدیبیہ والے سال ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب عسفان میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگو گے۔“ ہم نے کہا کیا قریشی؟ فرمایا: ”نہیں بلکہ یمنی نہایت نرم دل نہایت خوش اخلاق سادہ مزاج“ ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! پھر کیا وہ ہم سے بہتر ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو اور وہ اسے راہ اللہ خرچ کرے تو تم میں سے ایک کے تین پاؤ بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کی خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یاد رکھو کہ ہم میں اور دوسرے تمام لوگوں میں یہی فرق ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ» کی تلاوت کی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:674/11] لیکن یہ روایت غریب ہے۔
بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری کی روایت میں خارجیوں کے ذکر میں ہے کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ پر حقیر اور کمتر شمار کرو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے۔ [صحیح مسلم:1064]
ابن جریر میں ہے عنقریب ایک قوم آئے گی کہ تم اپنے اعمال کو کمتر سمجھنے لگو گے جب ان کے اعمال کے سامنے رکھو گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: کیا وہ قریشیوں میں سے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں وہ سادہ مزاج نرم دل یہاں والے ہیں“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ پھر فرمایا: ”وہ یمنی لوگ ہیں ایمان تو یمن والوں کا ایمان ہے اور حکمت یمن والوں کی حکمت ہے۔“ ہم نے پوچھا: کیا وہ ہم سے بھی افضل ہوں گے؟ فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس سونے کا پہاڑ ہو اور اسے وہ راہ اللہ دے ڈالے تو بھی تمہارے ایک مد یا آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں تو بند کر لیں اور چھنگلیا کو دراز کر کے فرمایا: ”خبردار رہو یہ ہے فرق ہم میں اور دوسرے لوگوں میں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ پس اس حدیث میں حدیبیہ کا ذکر نہیں۔
پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کے بعد کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی ہو، جیسے کہ سورۃ مزمل میں جو ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ شریف میں نازل ہوئی تھیں پروردگار نے خبر دی تھی کہ «وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ»[73-المزمل:20] یعنی ” کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔“ پس جس طرح اس آیت میں ایک آنے والے واقعہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اس آیت کو اور حدیث کو بھی سمجھ لیا جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے کہ «لاَّ يَسْتَوِى الْقَـعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِى الضَّرَرِ وَالْمُجَـهِدُونَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَـهِدِينَ بِأَمْوَلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَـعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَـهِدِينَ عَلَى الْقَـعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً» [4-النساء:95] ” اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعده دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔“
جیسے اور جگہ ہے کہ ” مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل ہیں۔“
صحیح حدیث میں ہے قوی مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے افضل ہے لیکن بھلائی دونوں میں ہے۔[صحیح مسلم:2664]
اگر یہ فقرہ اس آیت میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کسی کو ان بعد والوں کی سبکی کا خیال گزرے اس لیے فضیلت بیان فرما کر پھر عطف ڈال کر اصل اجر میں دونوں کو شریک بتایا۔
پھر فرمایا ” تمہارے تمام اعمال کی تمہارے رب کو خبر ہے وہ درجات میں جو تفاوت رکھتا ہے وہ بھی انداز سے نہیں بلکہ صحیح علم سے۔“
حدیث شریف میں ہے ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ [سنن نسائی:2528،قال الشيخ الألباني:حسن] یہ بھی یاد رہے کہ اس آیت کے بڑے حصہ دار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس لئے کہ اس پر عمل کرنے والے تمام نبیوں کی امت کے سردار ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدائی تنگی کے وقت اپنا کل مال راہ اللہ دے دیا تھا جس کا بدلہ سوائے اللہ کے کسی اور سے مطلوب نہ تھا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں دربار رسالت مآب میں تھا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ صرف ایک عبا آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر تھی، گریبان کانٹے سے اٹکائے ہوئے تھے جو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے جو ابوبکر نے فقط ایک عبا پہن رکھی ہے اور کانٹا لگا رکھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے اپنا کل مال میرے کاموں میں فتح سے پہلے ہی راہ اللہ خرچ کر ڈالا ہے اب ان کے پاس کچھ نہیں۔“ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ انہیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس فقیری میں تم مجھ سے خوش ہو یا ناخوش ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سب کہہ کر سوال کیا۔ جواب ملا کہ اپنے رب عزوجل سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں میں اس حال میں بہت خوش ہوں۔ [بغوی فی التفسیر:229/4:ضعیف] یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»