تفسير ابن كثير



ہر چیز کا خالق و مالک اللہ ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کرنا اور عرش پر قرار پکڑنا «هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ» [57-الحديد:4] ‏‏‏‏ سورۃ الاعراف کی تفسیر میں پوری طرح بیان ہو چکا ہے اس لیے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

«يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا» [57-الحديد:4] ‏‏‏‏ ” اسے بخوبی علم ہے کہ کس قدر بارش کی بوندیں زمین میں گئیں، کتنے دانے زمین میں پڑے اور کیا چارہ پیدا ہوا کس قدر کھیتیاں ہوئیں اور کتنے پھل کھلے۔“

جیسے اور آیت میں ہے «وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَآ إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ» ‏‏‏‏ [6-الأنعام:59] ‏‏‏‏، ” غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں سوائے اس کے اور کوئی جانتا ہی نہیں وہ خشکی اور تری کی تمام چیزوں کا عالم ہے، کسی پتے کا گرنا بھی اس کے علم سے باہر نہیں، زمین کے اندھیروں میں پوشیدہ دانہ اور کوئی تر و خشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں موجود نہ ہو۔“

اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی بارش، اولے، برف، تقدیر اور احکام جو برتر فرشتوں کے بذریعہ نازل ہوتے ہیں، سب اس کے علم میں ہیں۔

سورۃ البقرہ کی تفسیر میں یہ گزر چکا ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ فرشتے بارش کے ایک ایک قطرے کو اللہ کی بتائی ہوئی جگہ پہنچا دیتے ہیں، آسمان سے اترنے والے فرشتے اور اعمال بھی اس کے وسیع علم میں ہیں۔

جیسے صحیح حدیث میں ہے رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کی جناب میں پیش کر دیئے جاتے ہیں ۔ [صحیح مسلم:293] ‏‏‏‏

اور آیت میں ہے «وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ» [3-آل عمران:156] ‏‏‏‏ وہ تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارا نگہبان ہے۔ تمہارے اعمال و افعال کو دیکھ رہا ہے جیسے بھی ہوں جو بھی ہوں اور تم بھی خواہ خشکی میں ہو خواہ تری میں، راتیں ہوں یا دن ہوں، تم گھر میں ہو یا جنگل میں، ہر حالت میں اس کے علم کے لیے یکساں ہر وقت اس کی نگاہیں اور اس کا سننا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہارے تمام کلمات سنتا رہتا ہے تمہارا حال دیکھتا رہتا ہے، تمہارے چھپے کھلے کا اسے علم ہے۔

جیسے فرمایا ہے کہ «أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُواْ مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ» [11-هود:5] ‏‏‏‏ یعنی ” اس سے جو چھپنا چاہے اس کا وہ فعل فضول ہے بھلا ظاہر باطن بلکہ دلوں کے ارادے تک سے واقفیت رکھنے والے سے کوئی کیسے چھپ سکتا ہے؟ “

ایک اور آیت میں «سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ» [13-الرعد:10] ‏‏‏‏ ہے ” پوشیدہ باتیں ظاہر باتیں راتوں کو دن کو جو بھی ہوں سب اس پر روشن ہیں۔“ یہ سچ ہے وہی رب ہے وہی معبود برحق ہے۔

صحیح حدیث میں ہے کہ جبرائیل کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے ۔ [صحیح بخاری:50] ‏‏‏‏

ایک شخص آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا حکمت کا توشہ دیجئیے کہ میری زندگی سنور جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا لحاظ کر اور اس سے اس طرح شرما جیسے کہ تو اپنے کسی نزدیکی نیم قرابتدار سے شرماتا ہو جو تجھ سے کبھی جدا نہ ہوتا ہو ۔ [بیهقی فی شعب الایمان:145/6:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث ابوبکر اسماعیلی نے روایت کی ہے سند غریب ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے تین کام کر لیے اس نے ایمان کا مزہ اٹھا لیا۔ ایک اللہ کی عبادت کی اور اپنے مال کی زکوٰۃ ہنسی خوشی راضی رضا مندی سے ادا کی۔ جانور اگر زکوٰۃ میں دینے ہیں تو بوڑھے بیکار دبلے پتلے اور بیمار نہ دئیے بلکہ درمیانہ راہ اللہ میں دیا اور اپنے نفس کو پاک کیا۔‏‏‏‏ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! نفس کو پاک کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کو دل میں محسوس کرے اور یقین و عقیدہ رکھے کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے ۔ [ابونعیم] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے افضل ایمان یہ ہے کہ تو جان رکھے کہ تو جہاں کہیں ہے اللہ تیرے ساتھ ہے۔ [ابونعیم فی الحلیة:124/6] ‏‏‏‏

امام احمد رحمہ اللہ علیہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے رہتے تھے «إِذَا مَا خَلَوْت الدَّهْر يَوْمًا فَلَا تَقُلْ» * «خَلَوْت وَلَكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيبُ» * «وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّه يَغْفُل سَاعَة» * «وَلَا أَنَّ مَا تُخْفِي عَلَيْهِ يَغِيبُ» یعنی جب تو بالکل تنہائی اور خلوت میں ہو اس وقت بھی یہ نہ کہہ کہ میں اکیلا ہی ہوں بلکہ کہتا رہ کہ تجھ پر ایک نگہبان ہے یعنی اللہ تعالیٰ، کسی ساعت اللہ تعالیٰ کو بے خبر نہ سمجھ اور مخفی سے مخفی کام کو اس پر مخفی نہ مان۔

پھر فرماتا ہے کہ ” دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔ “ جیسے اور آیت میں ہے «وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَةَ وَالْاُوْلٰى» [92-الليل:13] ‏‏‏‏ ” دنیا آخرت کی ملکیت ہماری ہی ہے۔“ اس کی تعریف اس بادشاہت پر بھی کرنی ہمارا فرض ہے۔

فرماتا ہے «وَهُوَ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَلَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ» [28-القصص:70] ‏‏‏‏ یعنی ” وہی معبود برحق ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ “

ایک اور آیت میں ہے «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ» [34-سبأ:1] ‏‏‏‏ ” اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں اور اسی کی حمد ہے آخرت میں اور وہ دانا خبردار ہے۔“ پس ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے اس کی بادشاہت میں ہے۔ ساری آسمان و زمین کی مخلوق اس کی غلام اور اس کی خدمت گزار اور اس کے سامنے پست ہے۔

جیسے فرمایا «اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» [19-مريم:95-93] ‏‏‏‏ ” آسمان و زمین کی کل مخلوق رحمن کے سامنے غلامی کی حیثیت میں پیش ہونے والی ہے ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو ایک ایک کر کے گن رکھا ہے، اسی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں، اپنی مخلوق میں جو چاہے حکم دیتا ہے “۔

«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا» ‏‏‏‏ [4-النسأ:40] ‏‏‏‏ ” وہ عدل ہے ظلم نہیں کرتا، بلکہ ایک نیکی کو دس گنا بڑھا کر دیتا ہے اور پھر اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے “۔

ارشاد ہے «وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ» [21-الأنبياء:47] ‏‏‏‏ ” قیامت کے روز ہم عدل کی ترازو رکھیں گے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا، رائی کے برابر کا عمل بھی ہم سامنے لا رکھیں گے اور ہم حساب کرنے اور لینے میں کافی ہیں “۔

پھر فرمایا ” خلق میں تصرف بھی اسی کا چلتا ہے، دن رات کی گردش بھی اسی کے ہاتھ ہے اپنی حکمت سے گھٹاتا بڑھاتا ہے کبھی دن لمبے، کبھی راتیں اور کبھی دونوں یکساں، کبھی جاڑا، کبھی گرمی، کبھی بارش، کبھی بہار، کبھی خزاں اور یہ سب بندوں کی خیر خواہی اور ان کی مصلحت کے لحاظ سے ہے۔ وہ دلوں کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں اور دور کے پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہے “۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.