تمام حیوانات، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، «تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا»[17-الإسراء:44] ” ساتوں آسمان، زمینیں، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے۔ “ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام الحکمت سے پر ہیں۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے، خلق میں متصرف وہی ہے، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے، وہی فنا کرتا ہے، وہی پیدا کرتا ہے۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے، جو نہ چاہے نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد کی آیت «هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ» [57-الحديد:3] وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گزرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے۔
ابوزمیل رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہو گا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے «فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ» [10-یونس:94] ، یعنی ” اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے۔“
پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر «هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ» [57-الحديد:3] اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں۔
بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے «اللْهُمَّ رَبَّ السَّموَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، لَا إِلهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ، أَنْتَ الْأَوَّلُ لَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْاخِرُ لَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ لَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ لَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ. اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْر»”اے اللہ، اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب! اے تورات و انجیل کے اتارنے والے! اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے، تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے“۔ [مسند احمد:404/2:صحیح]
ابوصالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ ملاحظہ ہو مسلم۔ [صحیح مسلم:2813]
ابو یعلیٰ میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے (جو اوپر بیان ہوئی)“ الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ [مسند ابویعلیٰ:4774ضعیف]
اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو یہ کیا ہے؟“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا: ”اسے عنان کہتے ہیں، یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں، نہ اللہ کے پکارنے والے“، پھر پوچھا: ”معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے؟“، انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے، فرمایا: ”بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے؟“، وہی جواب ملا، فرمایا: ”پانچ سو سال کا راستہ“، پھر پوچھا: ”جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی“ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا: ”اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے“، پھر پوچھا: ”جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے“ اور جواب وہی سن کر فرمایا: ”دوسری زمین ہے“، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا: ”اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں“، پھر فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن رحمہ اللہ کا اپنے استاد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں جیسے کہ ایوب، یونس اور علی بن زید رحمہ اللہ علیہم محدثین کا قول ہے۔
بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے (نہ کہ ذات باری تعالیٰ) اللہ تعالیٰ کا علم، اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے۔
مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے۔
امام بزار رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اور کوئی نہیں۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ»
امام ابن جریر رحمہ اللہ آیت «وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ»[65-الطلاق:12] کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا، چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی قتادہ رحمہ اللہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ رحمہ اللہ کا اپنا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»