سابقین کا حال بیان کر کے اللہ تعالیٰ اب ابرار کا حال بیان فرماتا ہے جو سابقین سے کم مرتبہ ہیں۔ ان کا کیا حال ہے کیا نتیجہ ہے اسے سنو، یہ ان جنتوں میں ہیں، جہاں بیری کے درخت ہیں، لیکن کانٹے دار نہیں۔ اور پھل بکثرت اور بہترین ہیں، دنیا میں بیری کے درخت زیادہ کانٹوں والے اور کم پھلوں والے ہوتے ہیں۔ جنت کے یہ درخت زیادہ پھلوں والے اور بالکل بےخار ہوں گے، پھلوں کے بوجھ سے درخت کے تنے جھکے جاتے ہوں گے
ابوبکر بن سلمان نجاد رحمہ اللہ نے ایک روایت وارد کی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اعرابیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آنا اور آپ سے مسائل پوچھنا ہمیں بہت نفع دیتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی نے آ کر کہا: یا رسول اللہ ! قرآن میں ایک ایسے درخت کا بھی ذکر ہے جو ایذاء دیتا، آپ نے پوچھا: ”وہ کون سا“، اس نے کہا بیری کا درخت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو نے اس کے ساتھ ہی لفظ «مَخْضُود» نہیں پڑھا؟ اس کے کانٹے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیئے ہیں اور ان کے بدلے پھل پیدا کر دیئے ہیں ہر ایک بیری میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے جن کا رنگ و مزہ مختلف ہو گا“۔ [مستدرک حاکم476/2صحیح]
یہ روایت دوسری کتابوں میں بھی مروی ہے اس میں لفظ «طَلْح» ہے اور ستر ذائقوں کا بیان ہے۔ [طبرانی کبیر:130/17صحیح]
«طَلْح» ایک بڑا درخت ہے جو حجاز کی سر زمین میں ہوتا ہے، یہ کانٹے دار درخت ہے اس میں کانٹے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابن جریر نے اس کی شہادت عربی کے ایک شعر سے بھی دی ہے۔
«مَنْضُود» کے معنی تہہ بہ تہہ پھل والا، پھل سے لدا ہوا۔ ان دونوں کا ذکر اس لیے ہوا کہ عرب ان درختوں کی گہری اور میٹھی چھاؤں کو پسند کرتے تھے، یہ درخت بظاہر دنیوی درخت جیسا ہو گا لیکن بجائے کانٹوں کے اس میں شیرین پھل ہوں گے۔
جوہری فرماتے ہیں «طلح» بھی کہتے ہیں اور «طلع» بھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے، تو ممکن ہے کہ یہ بھی بیری کی ہی صفت ہو، یعنی وہ بیریاں بے خار اور بکثرت پھلدار ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور حضرات نے «طلح» سے مراد کیلے کا درخت کہا ہے، اہل یمن کیلے کو «طَلْح» کہتے ہیں اور اہل حجاز «موز» کہتے ہیں۔ لمبے لمبے سایوں میں یہ ہوں گے۔
صحیح بخاری میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت کے درخت کے سائے تلے تیز سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن سایہ ختم نہ ہو گا۔ اگر تم چاہو اس آیت کو پڑھو“۔ [صحیح بخاری4881]
مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے اور مسند احمد، مسند ابو یعلیٰ میں بھی، مسند کی اور حدیث میں شک کے ساتھ ہے یعنی ستر یا سو اور یہ بھی ہے کہ یہ «شجرۃ الخلد» ہے۔ [مسند احمد:455/2:صحیح]
ابن جریر اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے پس یہ حدث متواتر اور قطعاً صحیح ہے اس کی اسناد بہت ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ روایت بیان کی اور سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے کانوں تک پہنچی، تو آپ نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس نے تورات موسیٰ علیہ السلام پر اور قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا کہ اگر کوئی شخص نوجوان اونٹنی پر سوار ہو کر اس وقت چلتا رہے جب تک وہ بوڑھا ہو کر گر جائے تو بھی اس کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور خود آپ اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ہے، اس کی شاخیں جنت کی دیواروں سے باہر نکلی ہوئی ہیں، جنت کی تمام نہریں اسی درخت کی جڑ سے نکلتی ہیں۔
ابوحصین کہتے ہیں کہ ایک موضع میں ایک دروازے پر ہم تھے ہمارے ساتھ ابوصالح اور شفیق جہنی بھی تھے اور ابوصالح رحمہ اللہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اوپر کی حدیث بیان کی اور کہا: کیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جھٹلاتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، انہیں تو نہیں تجھے جھٹلاتا ہوں۔ پس یہ قاریوں پر بہت گراں گزرا۔ میں کہتا ہوں اس ثابت، صحیح اور مرفوع حدیث کو جو جھٹلائے وہ غلطی پر ہے۔
ترمذی میں ہے جنت کے ہر درخت کا تنا سونے کا ہے۔ [سنن ترمذي:2525،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر طرف سو سو سال کے راستے تک سایہ پھیلا ہوا ہے۔ جنتی لوگ اس کے نیچے آ کر بیٹھتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ کسی کو دنیوی کھیل تماشے اور دل بہلاوے یاد آتے ہیں تو اسی وقت ایک جنتی ہوا چلتی ہے اور اس درخت میں سے تمام راگ راگنیاں، باجے گاجے اور کھیل تماشوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند قوی ہے۔
عمرو بن میمون رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سایہ ستر ہزار سال کی طولانی میں ہو گا۔ آپ سے مرفوع حدیث میں ایک سو سال مروی ہے یہ سایہ گھٹتا ہی نہیں، نہ سورج آئے، نہ گرمی ستائے، فجر کے طلوع ہونے سے پیشتر کا سماں ہر وقت اس کے نیچے رہتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت میں ہمیشہ وہ وقت رہے گا جو صبح صادق کے بعد سے لے کر آفتاب کے طلوع ہونے کے درمیان درمیان رہتا ہے سایہ کے مضمون کی روایتیں بھی اس سے پہلے گزر چکی ہیں، جیسے آیت «وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا»[4-النسآء:57] اور آیت «اُكُلُهَا دَاىِٕمٌ وَّظِلُّهَا»[13-الرعد:35] اور آیت «اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ ظِلٰلٍ وَّعُيُوْنٍ»[77-المرسلات:41] وغیرہ پانی ہو گا بہتا ہوا مگر نہروں کے گڑھے اور کھدی ہوئی زمین نہ ہو گی، اس کی پوری تفسیر آیت «فِيْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ»[47-محمد:15] میں گزر چکی ہے۔
ان کے پاس بکثرت طرح طرح کے لذیذ میوے ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے، نہ کسی کان نے سنے، نہ کسی انسانی دل پر ان کا وہم و خیال گزرا۔ جیسے اور آیت میں ہے جب وہاں پھلوں سے روزی دیئے جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے بھی دئیے گئے تھے کیونکہ بالکل ہم شکل ہوں گے، لیکن جب کھائیں گے تو ذائقہ اور ہی پائیں گے۔
بخاری و مسلم میں سدرۃ المنتہیٰ کے ذکر میں ہے کہ اس کے پتے مثل ہاتھی کے کانوں کے ہوں گے اور پھل مثل ہجر کے بڑے بڑے مٹکوں کے ہوں گے، [صحیح بخاری:3207]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث میں جس میں آپ نے سورج کے گرہن ہونے کا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج گرہن کی نماز ادا کرنے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے یہ بھی ہے کہ بعد فراغت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے نمازیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو اس جگہ آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے دیکھا کیا بات تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت دیکھی، جنت کے میوے کا خوشہ لینا چاہا اگر میں لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے“۔ [صحیح بخاری:1052-3202]
ابو یعلیٰ میں ہے ظہر کی فرض نماز پڑھاتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور ہم بھی، پھر آپ نے گویا کوئی چیز لینی چاہی، پھر پیچھے ہٹ آئے، نماز سے فارغ ہو کر سیدنا ابی کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آج تو آپ نے ایسی بات کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے جنت لائی گئی اور جو اس میں تروتازگی اور سبزی ہے میں نے اس میں سے ایک انگور کا خوشہ توڑنا چاہا تاکہ لا کر تمہیں دوں، پس میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور اگر اس میں اسے تمہارے پاس لے آتا تو زمین و آسمان کے درمیان کی مخلوق اسے کھاتی رہتی تاہم اس میں ذرا سی بھی کمی نہ آتی“۔ اسی کے مثل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم شریف میں بھی مروی ہے۔ [صحیح مسلم:904]
مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کی بابت سوال کیا اور جنت کا بھی ذکر کیا پوچھا کہ کیا اس میں میوے بھی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہاں طوبیٰ نامی درخت بھی ہے؟“ پھر کچھ کہا جو مجھے یاد نہیں، پھر پوچھا: وہ درخت ہماری زمین کے کس درخت سے مشابہت رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تیرے ملک کی زمین میں کوئی درخت اس کا ہم شکل نہیں۔ کیا تو شام میں گیا ہے؟“، اس نے کہا نہیں، فرمایا: شام میں ایک درخت ہوتا ہے جسے جوزہ کہتے ہیں، ایک ہی تنا ہوتا ہے اور اوپر کا حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ البتہ اس کے مشابہ ہے، اس نے پوچھا: جنتی خوشے کتنے بڑے ہوتے ہیں؟ فرمایا: ”کالا کوا مہینہ بھر تک اڑتا رہے اتنے بڑے۔“ وہ کہنے لگا: اس درخت کا تنا کس قدر موٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو اپنی اونٹنی کے بچے کو چھوڑ دے اور وہ چلتا رہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر گر پڑے تب بھی اس کے تنے کا چکر پورا نہیں کر سکتا۔“ اس نے کہا: اس میں انگور بھی لگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، پوچھا: کتنے بڑے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کیا کبھی تیرے باپ نے اپنے ریوڑ میں سے کوئی موٹا تازہ بکرا ذبح کر کے اس کی کھال کھینچ کر تیری ماں کو دے کر کہا ہے کہ اس کا ڈول بنا لو؟ اس نے کہا: ہاں، فرمایا: ”بس اتنے ہی بڑے بڑے انگور کے دانے ہوتے ہیں۔“ اس نے کہا: پھر تو ایک ہی دانہ مجھ کو اور میرے گھر والوں کو کافی ہے، آپ نے فرمایا: ”بلکہ ساری برادری کو۔“[مسند احمد:183/4:ضعیف]
پھر یہ میوے بھی ہمیشہ رہنے والے ہیں، نہ کبھی ختم ہوں، نہ کبھی ان سے روکا جائے۔ یہ نہیں کہ جاڑے میں ہیں اور گرمیوں میں نہیں، یا گرمیوں میں ہیں اور جاڑوں میں نہیں، بلکہ یہ میوے دوام والے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں جب طلب کریں پا لیں اللہ کی قدرت سے ہر وقت وہ موجود رہیں گے، بلکہ کسی کانٹے اور کسی شاخ کو بھی آڑ نہ ہو گی، نہ دوری ہو گی، نہ حاصل کرنے میں تکلف اور تکلیف ہو گی۔ بلکہ ادھر پھل توڑا ادھر اس کے قائم مقام دوسرا پھل لگ گیا، جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گزر چکا۔ ان کے فرش بلند و بالا نرم اور گدے راحت و آرام دینے والے ہوں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کی اونچائی اتنی ہو گی جتنی زمین و آسمان کی یعنی پانچ سو سال کی۔ [سنن ترمذي:3294،قال الشيخ الألباني:ضعیف] یہ حدیث غریب ہے۔
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مطلب اس حدیث شریف کا یہ ہے کہ فرش کی بلندی درجے کی آسمان و زمین کے برابر ہے یعنی ایک درجہ دوسرے درجے سے اس قدر بلند ہے۔ ہر دو درجوں میں پانچ سو سال کی راہ کا فاصلہ ہے، پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ روایت صرف رشد بن سعد سے مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں۔ یہ روایت ابن جریر، ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی ہے۔
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان کی اونچائی اسی سال کی ہے۔ اس کے بعد ضمیر لائے جس کا مرجع پہلے مذکور نہیں اس لیے کہ قرینہ موجود ہے۔ بستر کا ذکر آیا جس پر جنتیوں کی بیویاں ہوں گی پس ان کی طرف ضمیر پھیر دی۔ جیسے سلیمان علیہ السلام کے ذکر میں تورات کا لفظ آیا ہے اور «شمس» کا لفظ اس سے پہلے نہیں پس قرینہ کافی ہے۔ لیکن ابوعبیدہ کہتے ہیں پہلے مذکورہ ہو چکا «وَحُوْرٌ عِيْنٌ»[56-الواقعة:22]