تفسير ابن كثير



کافر اور منافقوں کے ارادے اور غزوہ احد کا پھر اندوہناک تذکرہ ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو کافروں اور منافقوں کی باتوں کے ماننے سے روک رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اگر ان کی مانی تو دنیا اور آخرت کی ذلت تم پر آئے گی ان کی چاہت تو یہی ہے کہ تمہیں دین اسلام سے ہٹا دیں پھر فرماتا ہے مجھ ہی کو اپنا والی اور مددگار جانو مجھ ہی سے دوستی کرو مجھ ہی پر بھروسہ کرو مجھ ہی سے مدد چاہو پھر فرمایا کہ ان شریروں کے دلوں میں ان کے کفر کے سبب ڈر خوف ڈال دوں گا۔

بخاری مسلم میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ باتیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی ہے میرے لیے زمین مسجد اور اس کی مٹی وضو کی پاک چیز بنائی گئی، میرے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے اور مجھے شفاعت دی گئی اور ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف سے مخصوص بھیجا جاتا تھا اور میری بعثت، میری نبوت تمام دنیا کیلئے عام ہوئی۔ [صحیح بخاری:335] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں پر اور بعض روایتوں میں ہے تمام امتوں پر مجھے چار فضیلتیں عطا فرمائی ہیں، مجھے تمام دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا، میرے اور میری امت کیلئے تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی، میرے امتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہیں اس کی مسجد اور اس کا وضو ہے، میرا دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہو وہیں سے اللہ تعالیٰ اس کا دل رعب سے پُر کر دیتا ہے اور وہ کانپنے لگتا ہے اور میرے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے [مسند احمد:248/5:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ میں مدد کیا گیا ہوں میرے رعب سے ہر دشمن پر [صحیح مسلم:523] ‏‏‏‏

مسند کی ایک اور حدیث میں ہے مجھے پانچ چیزیں دی گئیں میں ہر سرخ و سفید کی طرف بھیجا گیا میرے لیے تمام زمین وضو اور مسجد بنائی گی۔ میرے لیے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے جو میرے پہلے کسی کے حلال نہ تھے اور میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی اور مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء نے شفاعت مانگ لی لیکن میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے لوگوں کیلئے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو بچار کھی ہے [مسند احمد:416/4:صحیح لغیرہ] ‏‏‏‏

،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور وہ لڑائی سے لوٹ گیا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:598/2:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور تمہاری مدد کی اس سے بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ یہ وعدہ احد کے دن کا تھا تین ہزار دشمن کا لشکر تھا تاہم مقابلہ پر آتے ہی ان کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن پھر تیر اندازوں کی نافرمانی کی وجہ سے اور بعض حضرات کی پست ہمتی کی بناء پر وہ وعدہ جو مشروط تھا رک گیا، پس فرماتا ہے کہ تم انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹتے تھے۔

شروع دن میں ہی اللہ نے تمہیں ان پر غالب کر دیا لیکن تم نے پھر بزدلی دکھائی اور نبی کی نافرمانی کی ان کی بتائی ہوئی جگہ سے ہٹ گئے اور آپس میں اختلاف کرنے لگے حالانکہ اللہ عزوجل نے تمہیں تمہاری پسند کی *چیز فتح* دکھا دی تھی، یعنی مسلمان صاف طور پر غالب آ گئے تھے مال غنیمت آنکھوں کے سامنے موجود تھا کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے تم میں سے بعض نے دنیا طلبی کی اور کفار کی ہزیمت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا خیال نہ کر کے مال غنیمت کی طرف لپکے، گو بعض اور نیک آخرت طلب بھی تھے لیکن اس نافرمانی وغیرہ کی بنا پر کفار کی پھر بن آئی اور ایک مرتبہ تمہاری پوری آزمائش ہو گئی غالب ہو کر مغلوب ہو گئے فتح کے بعد شکست ہو گئی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس جرم کو معاف فرما دیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بظاہر تم ان سے تعداد میں اور اسباب میں کم تھے خطا کا معاف ہونا بھی «عفاعنکم» میں داخل ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ کچھ یونہی سی گوشمالی کر کے کچھ بزرگوں کی شہادت کے بعد اس نے اپنی آزمائش کو اٹھا لیا اور باقی والوں کو معاف فرما دیا، اللہ تعالیٰ باایمان لوگوں پر فضل و کرم لطف و رحم ہی کرتا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد جیسی احد میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی۔ اسی کے بارے میں ارشاد باری ہے کہ اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا لیکن پھر تمہارے کرتوتوں سے معاملہ برعکس ہو گیا، بعض لوگوں نے دنیا طلبی کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی یعنی بعض تیر اندوزوں نے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کے درے پر کھڑا کیا تھا اور فرما دیا تھا کہ تم یہاں سے دشمنوں کی نگہبانی کرو وہ تمہاری پیٹھ کی طرف سے نہ آ جائیں، اگر تم ہار دیکھو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اگر تم ہر طرح غالب آ گئے تو بھی تم غنیمت جمع کرنے کیلئے بھی اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا،

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو تیر اندوزوں نے حکم عدولی کی اور وہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملے اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا صفوں کا کوئی خیال نہ رہا درے کو خالی پا کر مشرکوں نے بھاگنا بند کیا اور غور و فکر کر کے اس جگہ حملہ کر دیا، چند مسلمانوں کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کی بے خبری میں اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم نہ جم سکے اور شروع دن کی فتح اب شکست سے بدل گئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے اور لڑائی کے رنگ نے مسلمانوں کو اس بات کا یقین بھی دلا دیا، تھوڑی دیر بعد جبکہ مسلمانوں کی نظریں چہرہ مبارک پر پڑیں تو وہ اپنی سب کوفت اور ساری مصیبت بھول گئے اور خوشی کے مارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے آپ ادھر آ رہے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت غضب نازل ہو ان لوگوں پر جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو خون آلودہ کر دیا، انہیں کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح ہم پر غالب رہ جائیں۔

تھوڑی دیر میں ہم نے سنا کہ ابوسفیان پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا «اعل ہبل اعل ھبل» ہبل بت کا بول بالا ہو ابوبکر کہاں ہیں؟ عمر کہاں ہیں؟ عمر نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جواب دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو عمر فاروق نے اس کے جواب میں فرمایا «اللہ اعلی واجل اللہ اعلی واجل» اللہ بہت بلند ہے اور جلال و عزت والا ہے اللہ بہت بلند اور جلال و عزت والا ہے، وہ پوچھنے لگا بتاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ ابوبکر کہاں ہیں؟ عمر کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور یہ ہوں میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ ابوسفیان کہنے لگا یہ بدر کا بدلہ ہے یونہی دھوپ چھاؤں الٹتی پلٹتی رہتی ہے، لڑائی کی مثال کنویں کے ڈول کی سی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا برابری کا معاملہ ہرگز نہیں تمہارے مقتول تو جہنم میں گئے اور ہمارے شہید جنت میں پہنچے، ابوسفیان کہنے لگا اگر یونہی ہو تو یقیناً ہم نقصان اور گھاٹے میں رہے، سنو تمہارے مقتولین میں بعض ناک کان کٹے لوگ بھی تم پاؤ گے گویہ ہمارے سرداروں کی رائے سے نہیں ہوا لیکن ہمیں کچھ برا بھی نہیں معلوم ہوا، [مسند احمد:278/1:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏

یہ حدیث غریب ہے اور یہ قصہ بھی عجیب ہے، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مرسلات سے ہے اور وہ یا ان کے والد جنگ احد میں موجود نہ تھے، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت موجود ہے۔

ابن ابی حاتم اور بیہقی فی دلائل النبوۃ میں بھی یہ مروی ہے اور صحیح احادیث میں اس کے بعض حصوں کے شواہد بھی ہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احد والے دن عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں جو زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں مجھے تو پوری طرح یقین تھا کہ آج کے دن ہم میں کوئی ایک بھی طالب دنیا نہیں بلکہ اس وقت اگر مجھے اس بات پر قسم کھلوائی جاتی تو کھا لیتا لیکن قرآن میں یہ آیت اتری «مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ» [3-آل عمران:152] ‏‏‏‏

یعنی تم میں سے بعض طالب دنیا بھی ہیں، جب صحابہ رضی اللہ عنہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف آپ کی نافرمانی سرزد ہوئی تو ان کے قدم اکھڑ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات انصاری اور دو مہاجر باقی رہ گئے جب مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو انہیں ہٹائے تو ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور اس جمِ غفیر کے مقابل تن تنہا داد شجاعت دینے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے پھر کفار نے حملہ کیا آپ نے یہی فرمایا ایک انصاری تیار ہو گئے اور اس بے جگری سے لڑے کہ انہیں آگے نہ بڑھنے دیا لیکن بالآخر یہ بھی شہید ہو گئے یہاں تک کہ ساتوں صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے ہاں پہنچ گئے اللہ ان سے خوش ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین سے فرمایا افسوس ہم نے اپنے ساتھیوں سے منصفانہ معاملہ نہ کیا، اب ابوسفیان نے ہانک لگائی کہ «اعل ہبل» آپ نے فرمایا کہو «اللہ اعلی واجل» ابوسفیان نے کہا «لنا العزی ولا عزی لکم» ہمارا عزی بت ہے تمہاری کوئی عزی نہیں، آپ نے فرمایا کہو «اللہ مولانا والکافرون لا مولی لھم اللہ» ہمارا مولی ہے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں، ابوسفیان کہنے لگا آج کے دن بدر کے دن کا بدلہ ہے کوئی دن ہمارا اور کوئی دن تمہارا۔ یہ تو ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے، ایک کے بدلے ایک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز برابر نہیں ہمارے شہداء زندہ ہیں وہاں رزق دئیے جاتے ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں عذاب کئے جا رہے ہیں پھر ابوسفیان بولا تمہارے مقتولوں میں تم دیکھو گے کہ بعض کے کان ناک وغیرہ کاٹ لیے گئے ہیں لیکن میں نے نہ یہ کہا نہ اسے روکا نہ اسے میں نے پسند کیا نہ مجھے یہ بھلا معلوم ہوا نہ برا۔

اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا تھا اور ہندہ نے انکا کلیجہ لے کر چبایا تھا لیکن نگل نہ سکی تو اگل دیا، حضور علیہ السلام نے فرمایا نا ممکن تھا کہ اس کے پیٹ میں حمزہ کا ذرا سا گوشت بھی چلا جائے اللہ تعالیٰ حمزہ کے کسی عضو بدن کو جہنم میں لے جانا نہیں چاہتا چنانچہ حمزہ کے جنازے کو اپنے سامنے رکھ کر نماز جنازہ ادا کی پھر ایک انصاری رضی اللہ عنہ کا جنازہ لایا گیا وہ حمزہ کے پہلو میں رکھا گیا اور آپ نے پھر نماز جنازہ پڑھی انصاری رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھا لیا گیا لیکن سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ وہیں رہا اسی طرح ستر شخص لائے گئے اور حمزہ کی ستر دفعہ جنازے کی نماز پڑھی گئی [مسند احمد:463/1:حسن لغیرہ] ‏‏‏‏ [ مسند ] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ احد والے دن مشرکوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو الگ جما دیا اور انکا سردار سیدنا عبداللہ بن جیبر رضی اللہ عنہ کو بنایا اور فرما دیا کہ اگر تم ہمیں ان پر غالب آیا ہوا دیکھو تو بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور وہ ہم پر غالب آ جائیں تو بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا، لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ کے فضل سے مشرکوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگے یہاں تک کہ عورتیں بھی تہبند اونچا کر کر کے پہاڑوں میں ادھر دوڑنے لگیں، اب تیر انداز گروہ غنیمت غنیمت کہتا ہوا نیچے اتر آیا، ان کے امیر نے انہیں ہر چند سمجھایا لیکن کسی نے ان کی نہ سنی، بس اب مشرکین مسلمانوں کی پیٹھ کی طرف سے آن پڑے اور ستر بزرگ شہید ہو گئے۔

ابوسفیان ایک ٹیلے پر چڑھ کر کہنے لگا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں؟ کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہیں؟ کیا عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے صحابہ خاموش رہے تو وہ خوشی کے مارے اچھل پڑا اور کہنے لگا یہ سب ہماری تلواروں کے گھاٹ اتر گئے اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو تاب ضبط نہ رہی فرمانے لگے، اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے بحمد للہ ہم سب موجود ہیں اور تیری تباہی اور بربادی کرنے والے زندہ ہیں، پھر وہ باتیں ہوئیں جو اوپر بیان ہو چکی ہیں، [صحیح بخاری:4043] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جنگ احد میں مشرکوں کو ہزیمت ہوئی اور ابلیس نے آواز لگائی اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے کی خبر لو اگلی جماعتیں پچھلی جماعتوں پر ٹوٹ پڑیں، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تلواریں ان کے والد سیدنا یمان رضی اللہ عنہ پر برس رہی ہیں ہر چند کہتے رہے کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرے باپ یمان ہیں مگر کون سنتا تھا وہ یونہی شہید ہو گئے لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کچھ نہ کہا بلکہ فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ بھلائی ان کے آخری دم تک ان میں رہی۔ [صحیح بخاری:4065] ‏‏‏‏

سیرت ابن اسحٰق میں ہے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے خود دیکھا کہ مشرک مسلمانوں کے اول حملہ میں ہی بھاگ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کی عورتیں ہندہ وغیرہ تہبند اٹھائے تیز تیز دوڑ رہی تھیں لیکن اس کے بعد جب تیر اندازوں نے مرکز چھوڑا اور کفار نے سمٹ کر پیچھے کی طرف سے ہم پر حملہ کر دیا ادھر کسی نے آواز لگائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے پھر معاملہ برعکس ہو گیا ورنہ ہم مشرکین کے علم برداروں تک پہنچ چکے تھے اور جھنڈا اس کے ہاتھ سے گر پڑا تھا لیکن عمرہ بن علقمہ حارثیہ عورت نے اسے تھام لیا اور قریش کا مجمع پھر یہاں جمع ہو گیا،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ چچا سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ یہ رنگ دیکھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے پاس آتے ہیں اور فرماتے ہیں تم نے کیوں ہمتیں چھوڑ دیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید ہو گئے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر تم جی کر کیا کرو گے؟ یہ کہا اور مشرکین میں گھسے پھر لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ رب العزت سے جا ملے، [تفسیر ابن جریر الطبری:4945:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ بدر والے دن جہاد میں نہیں پہنچ سکے تھے تو عہد کیا تھا کہ آئندہ اگر کوئی موقعہ آیا تو میں دکھا دوں گا چنانچہ اس جنگ میں وہ موجود تھے جب مسلمانوں میں کھلبلی مچی تو انہوں نے کہا اللہ میں مسلمانوں کے اس کام سے معذور ہوں اور مشرکوں کے اس کام سے بری ہوں پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھ گئے راہ میں سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملے اور کہنے لگے کہاں جا رہے ہو؟ مجھے تو جنت کی خوشبو کی لپٹیں احد پہاڑ سے چلی آ رہی ہیں چنانچہ مشرکوں میں گھس گئے اور بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ شہادت حاصل کی اسی (‏‏‏‏80)‏‏‏‏‏‏‏‏ سے زیادہ تیر و تلوار کے زخم بدن پر آئے تھے پہچانے نہ جاتے تھے انگلی کو دیکھ کر پہچانے گئے۔ [صحیح بخاری:4048] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک حاجی نے بیت اللہ شریف میں ایک مجلس دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا قریشی ہیں پوچھا ان کے شیخ کون ہیں؟ جواب ملا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں، اب وہ آیا اور کہنے لگا میں کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پوچھو اس نے کہا آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم کیا آپ کو علم ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ احد والے دن بھاگ گئے تھے؟ آپ نے جواب دیا ہاں۔ کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر والے دن بھی حاضر نہیں ہوئے تھے؟ فرمایا ہاں، کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت الرضوان میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے؟ فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے، اب اس نے [ خوش ہو کر ] ‏‏‏‏ تکبیر کہی، عبداللہ نے فرمایا ادھر آ، اب میں تجھے پورے واقعات سناؤں، احد کے دن کا بھاگنا تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، بدر کے دن کی غیر حاضری کے باعث یہ ہوا کہ آپ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت سخت بیمار تھیں تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ تم نہ آؤ مدینہ میں ہی رہو تمہیں اللہ تعالیٰ اس جنگ میں حاضر ہونے کا اجر دے گا اور غنیمت میں بھی تمہارا حصہ ہے۔

بیعت الرضوان کا واقعہ یہ ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کے پاس اپنا پیغام دے کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اس لیے کہ مکہ میں جو عزت انہیں حاصل تھی کسی اور کو اتنی نہ تھی ان کے تشریف لے جانے کے بعد یہ بیعت لی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ کھڑا کر کے کہا یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا [ گویا بیعت کی ] ‏‏‏‏ پھر اس شخص سے کہا اب جاؤ اور اسے ساتھ لے جاؤ۔ [صحیح بخاری:3699] ‏‏‏‏

پھر فرمایا آیت «إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ» [3-آل عمران:153] ‏‏‏‏ الخ، یعنی تم اپنے دشمن سے بھاگ کر پہاڑ چڑھ رہے تھے اور مارے خوف و دہشت کے دوسری جانب توجہ بھی نہیں کرتے تھے

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تم نے وہیں چھوڑ دیا تھا وہ تمہیں آوازیں دے رہے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ بھاگو نہیں لوٹ آؤ، سیدنا سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مشرکین کے اس خفیہ اور پر زور اور اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے کچھ تو مدینہ کی طرف لوٹ آئے کچھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اللہ کے نبی آوازیں دیتے رہے کہ اللہ کے بندوں میری طرف آؤ اللہ کے بندو میری طرف آؤ، اس واقعہ کا بیان اس آیت میں ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:301/7] ‏‏‏‏

عبداللہ بن زحری شاعر نے اس واقعہ کو نظم میں بھی ادا کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صرف بارہ آدمیوں کے ساتھ رہ گئے تھے [مسند احمد:293/4:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد کی ایک طویل حدیث میں بھی ان تمام واقعات کا ذکر ہے، دلائل النبوۃ میں ہے کہ جب ہزیمت ہوئی تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف گیارہ شخص رہ گئے اور ایک سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما تھے، آپ پہاڑ پر چڑھنے لگے لیکن مشرکین نے آگھیرا آپ نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کوئی ہے جو ان سے مقابلہ کرے۔

سیدنا طلحہ نے اس آواز پر فوراً لبیک کہا اور تیار ہو گئے لیکن آپ نے فرمایا تم ابھی ٹھہر جاؤ اب ایک انصاری تیار ہوئے اور وہ ان سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوئے اسی طرح سب کے سب ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور اب صرف طلحہ رہ گئے گو یہ بزرگ ہر مرتبہ تیار ہو جاتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں روک لیا کرتے تھے آخر یہ مقابلہ پر آئے اور اس طرح جم کر لڑے کہ ان سب کی لڑائی ایک طرف اور یہ ایک طرف، اس لڑائی میں ان کی انگلیاں کٹ گئیں تو زبان سے حس نکل گیا آپ نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہہ دیتے یا اللہ کا نام لیتے تو تمہیں فرشتے اٹھا لیتے اور آسمان کی بلندی کی طرف لے چڑھتے اور لوگ دیکھتے رہتے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں پہنچ چکے تھے۔ [سنن نسائی:3151،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا قیس بن حازم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ جسے انہوں نے ڈھال بنایا تھا شل ہو گیا تھا۔ [صحیح بخاری:4063] ‏‏‏‏

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ترکش سے احد والے دن تمام تیر پھیلا دئیے اور فرمایا تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، لے مشرکین کو مار [صحیح بخاری:3725] ‏‏‏‏

آپ اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے تھے اور میں تاک تاک کر مشرکین کو مارتا جاتا تھا اس دن میں نے دو شخصوں کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں تھے اور سخت ترین جنگ کر رہے تھے میں نے نہ تو اس سے پہلے کبھی انہیں دیکھا تھا نہ اس کے بعد یہ دونوں سیدنا جبرائیل علیہ السلام اور سیدنا میکائیل علیہعلیہ السلام تھے۔ [صحیح بخاری:2306] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ جو بزرگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھگدڑ کے بعد تھے اور ایک ایک ہو کر شہید ہوئے تھے انہیں آپ فرماتے جاتے تھے کہ کوئی ہے جو انہیں رو کے اور جنت میں جائے میرا رفیق ہے۔ [صحیح مسلم:1789] ‏‏‏‏

ابی بن خلف نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کروں گا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ تو نہیں بلکہ میں ان شاءاللہ اسے قتل کروں گا احد والے دن یہ خبیث سر تا پا لوہے میں غرق زرہ بکتر لگائے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا اور یہ کہتا آتا تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچ گئے تو میں اپنے آپکو ہلاک کر ڈالوں گا ادھر سے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اس ناہنجار کی طرف بڑھے لیکن آپ شہید ہو گئے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف بڑھے اس کا سارا جسم لوہے میں چھپا ہوا تھا صرف ذرا سی پیشانی نظر آ رہی تھی آپ نے اپنا نیزہ تاک کر وہیں لگایا جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور یہ تیورا کر گھوڑے پر سے گرا گو اس زخم سے خون بھی نہ نکلا تھا لیکن اس کی یہ حالت تھی کہ بلبلا رہا تھا لوگوں نے اسے اٹھا لیا لشکر میں لے گئے اور تشفی دینے لگے کہ ایسا کوئی کاری زخم نہیں لگا کیوں اس قدر نامردی کرتا ہے آخر ان کے طعنوں سے مجبور ہو کر اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں ابی کو قتل کروں گا سچ مانو اب میں کبھی نہیں بچ سکتا تم اس پر نہ جاؤ کہ مجھے ذرا سی خراش ہی آئی ہے اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کل اہل ذی المجاز کو اتنا زخم اس ہاتھ سے لگ جاتا تو سب ہلاک ہو جاتے پس یونہی تڑپتے تڑپتے اور بلکتے بلکتے اس جہنمی کی ہلاکت ہوئی اور مر کر جہنم رسید ہوا۔ [صحیح مسلم:1789] ‏‏‏‏

مغازی محمد بن اسحاق میں ہے کہ جب یہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے مقابلہ کی خواہش کی لیکن آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا اسے آنے دو جب وہ قریب آ گیا تو آپ نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے نیزہ لے کر اس پر حملہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نیزہ دیکھتے ہی وہ کانپ اٹھا ہم نے اسی وقت سمجھ لیا کہ اس کی خیر نہیں آپ نے اس کی گردن پر وار کیا اور وہ لڑکھڑا کر گھوڑے پر سے گرا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ بطن رابغ میں اس کافر کو موت آئی، ایک مرتبہ میں پچھلی رات یہاں سے گزراتو میں نے ایک جگہ سے آگ کے دہشت ناک شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے اور دیکھا کہ ایک شخص کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس آگ میں گھسیٹا جا رہا ہے اور وہ پیاس پیاس کر رہا ہے اور دوسرا شخص کہتا ہے اسے پانی نہ دینا یہ پیغمبر کے ہاتھ کا مارا ہوا ہے یہ ابی بن خلف ہے۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:259/3:ضعیف] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے آپ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف جنہیں مشرکین نے احد والے دن شہید کیا تھا اشارہ کر کے فرما رہے تھے اللہ کا سخت تر غضب ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا غضب ہے جسے اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں قتل کرے [صحیح بخاری:4073] ‏‏‏‏

اور روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کیا، [صحیح بخاری:4073] ‏‏‏‏ عتبہ بن ابی وقاص کے ہاتھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ زخم لگا تھا سامنے کے چار دانٹ ٹوٹ گئے تھے، رخسار پر زخم آیا تھا اور ہونٹ پر بھی، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے مجھے جس قدر اس شخص کی حرص تھی کسی اور کے قتل کی نہ تھی۔ یہ شخص بڑا بدخلق تھا اور ساری قوم سے اس کی دشمنی تھی اس کی برائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی ہونے والے پر اللہ سخت غضبناک ہے، [دلائل النبوۃ للبیهقی:265/3:ضعیف] ‏‏‏‏ عبدالرزاق میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے بد دعا کی کہ اے اللہ سال بھر میں یہ ہلاک ہو جائے اور کفر پر اس کی موت ہو چنانچہ یہی ہوا اور یہ بدبخت کافر مرا اور جہنم واصل ہوا۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:265/3:ضعیف مرسل] ‏‏‏‏

ایک مہاجر کا بیان ہے کہ چاروں طرف سے احد والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی لیکن اللہ کی قدرت سے وہ سب پھیر دیئے جاتے تھے۔

عبداللہ بن شہاب زہری نے اس دن قسم کھا کر کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا دو وہ آج میرے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا اگر وہ نجات پا گیا تو میری نجات نہیں اب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لپکا اور بالکل آپ کے پاس آ گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر ہی نہ آئے جب وہ نامراد پلٹا تو صفوان نے اسے طعنہ زنی کی اس نے کہا اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ ہیں ہمارے ہاتھ نہیں لگنے کے سنو! ہم چار شخصوں نے ان کے قتل کا پختہ مشورہ کیا تھا اور آپس میں عہدو پیمان کئے تھے ہم نے ہر چند چاہا لیکن کامیابی نہ ہوئی [مغازی الواقدی:238/1:ضعیف] ‏‏‏‏

واقدی کہتے ہیں لیکن ثابت شدہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کو زخمی کرنے والا ابن قمیہ اور ہونٹ اور دانتوں پر صدمہ پہچانے والا عتبہ بن ابی وقاص تھا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے والد سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ جب احد کا ذکر فرماتے تو صاف کہتے کہ اس دن کی تمام تر فضیلت کا سہرا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سر ہے میں جب لوٹ کر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں جان ٹکائے لڑ رہا ہے میں نے کہا اللہ کرے یہ طلحہ ہو اب جو قریب آ کر دیکھا تو طلحہ ہی تھے رضی اللہ عنہ۔ میں نے کہا الحمداللہ! میری ہی قوم کا ایک شخص ہے میرے اور مشرکوں کے درمیان ایک شخص تھا جو مشرکین میں کھڑا ہوا تھا لیکن اس کے بےپناہ حملے مشرکوں کی ہمت توڑ رہے تھے غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، اب جو میں نے بغور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے ہیں چہرہ زخمی ہو رہا ہے اور پیشانی میں زرہ کی دو کڑیاں کھب گئی ہیں میں آپ کی طرف لپکا لیکن آپ نے فرمایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی خبر لو میں نے چاہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں سے دونوں کڑیاں نکالوں لیکن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے مجھے قسم دے کر روک دیا اور خود قریب آئے اور ہاتھ سے نکالنے میں زیادہ تکلیف محسوس کر کے دانتوں سے پکڑ کر ایک کو نکال لیا لیکن اس میں ان کا دانت بھی ٹوٹ گیا میں نے اب پھر چاہا کہ دوسری میں نکال لوں لیکن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پھر قسم دی تو میں رک رہا انہوں نے پھر دوسری کڑی نکالی اب کی مرتبہ بھی ان کے دانت ٹوٹے اس سے فارغ ہو کر ہم طلحہ کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے دیکھا کہ ستر سے زیادہ زخم انہیں لگ چکے ہیں انگلیاں کٹ گئی ہیں ہم نے پھر ان کی بھی خبر لی [طیالسی:6:ضعیف] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا خون سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے چوسا تاکہ خون تھم جائے پھر ان سے کہا گیا کہ کلی کر ڈالو لیکن انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں کلی نہ کروں گا پھر میدان جنگ میں چلے گئے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص جنتی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو تو انہیں دیکھ لے چنانچہ یہ اسی میدان میں شہید ہوئے، [دلائل النبوۃ للبیهقی:266/5:ضعیف مرسل] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہوا سامنے کے دانت ٹوٹے سر کا خود ٹوٹا، فاطمہ خون دھوتی تھیں اور علی ڈھال میں پانی لا لا کر ڈالتے جاتے تھے جب دیکھا کہ خون کسی طرح تھمتا ہی نہیں تو فاطمہ نے بوریا جلا کر اس کا راکھ زخم پر رکھ دی جس سے خون بند ہوا۔ [صحیح بخاری:2911] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے، تمہیں غم پر غم پہنچا «‏‏‏‏بِغَمِّ» کا «با» معنی میں «علیٰ» ‏‏‏‏ کے ہے جیسے آیت «‏‏‏‏فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ» [20-طه:71] ‏‏‏‏ میں «فِي» معنی میں علیٰ کے ہے، ایک غم تو شکست کا تھا جبکہ یہ مشہور ہو گیا کہ [ اللہ نہ کرے ] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر بن آئی، دوسرا غم مشرکوں کو پہاڑ کے اوپر غالب آ کر چڑھ جانے کا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے یہ بلندی کے لائق نہ تھے، عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں ایک غم شکست کا دوسرا غم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خبر کا اور یہ غم پہلے غم سے زیادہ تھا،

اسی طرح یہ بھی ہے کہ ایک غم تو غنیمت کا ہاتھ میں آ کر نکل جانے کا تھا دوسرا شکست ہونے کا اسی طرح ایک اپنے بھائیوں کے قتل کا غم دوسرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسی منحوس خبر کا غم۔ پھر فرماتا ہے جو غنیمت اور فتح مندی تمہارے ہاتھ سے گئی اور جو زخم و شہادت ملی اس پر غم نہ کھاؤ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جو بلندی اور جلال والا ہے وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.