پھر سعادت دارین کے حصول کیلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کو فرماتا ہے اور جنت کی تعریف کرتا ہے، چوڑائی کو بیان کر کے لمبائی کا اندازہ سننے والوں پر ہی چھوڑا جاتا ہے جس طرح جنتی فرش کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا «مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍ بَطَاىِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ»[55-الرحمن:54] یعنی اس کا استر نرم ریشم کا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جب استر ایسا ہے تو ابرے کا کیا ٹھکانا ہے؟ اسی طرح یہاں بھی بیان ہو رہا ہے کہ جب عرض ساتوں آسمانوں اور ساتویں زمینوں کے برابر ہے تو طول کتنا بڑا ہو گا اور بعض نے کہا ہے کہ عرض و طول یعنی لمبائی چوڑائی دونوں برابر ہے کیونکہ جنت مثل قبہ کے عرش کے نیچے ہے اور جو چیز قبہ نما ہو یا مستدیر ہو اس کا عرض و طول یکساں ہوتا ہے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس کا سوال کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے اچھی جنت ہے اسی جنت سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اور اسی کی چھت اللہ تعالیٰ رحمن رحیم کا عرش ہے۔ [صحیح بخاری:335/2]
مسند امام احمد میں ہے کہ ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور اعتراض کے ایک سوال لکھ بھیجا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دے رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو یہ فرمایئے کہ پھر جہنم کہاں گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سبحان اللہ! جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟ [مسند احمد:441/3:ضعیف]
، جو قاصد ہرقل کا یہ خط لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تھا، اس سے سیدنا یعلیٰ بن مرہ رحمہ اللہ کی ملاقات حمص میں ہوئی تھی کہتے ہیں اس وقت یہ بہت ہی بوڑھا ہو گیا تھا کہنے لگا جب میں نے یہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے اپنی بائیں طرف کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو دیا میں نے لوگوں سے پوچھا ان کا کیا نام ہے؟ لوگوں نے کہا یہ سیدنا معاویہ ہیں رضی اللہ عنہ ہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال ہوا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ دن کے وقت رات اور رات کے وقت دن کہاں جاتا ہے؟ یہودی یہ جواب سن کر کھسیانے ہو کر کہنے لگے کہ یہ توراۃ سے ماخوذ کیا ہو گا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ جواب مروی ہے۔
ایک مرفوع حدیث میں ہے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا جب ہر چیز پر رات آ جاتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے؟ اس نے کہا جہاں اللہ چاہے، آپ نے فرمایا اسی طرح جہنم بھی جہاں چاہے [ بزار ] [بزار فی کشف الاستار:2196:حسن] اس جملہ کے دو معنی ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ رات کے وقت ہم گو دن کو نہیں دیکھ سکتے لیکن تاہم دن کا کسی جگہ ہونا ناممکن نہیں، اسی طرح گو جنت کا عرض اتنا ہی ہے لیکن پھر بھی جہنم کے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا جہاں اللہ چاہے وہ بھی ہے، دوسرے معنی یہ کہ جب دن ایک طرف چڑھنے لگا رات دوسری جانب ہوتی ہے اسی طرح جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور دوزخ اسفل السافلین میں تو کوئی نفی کا امکان ہی نہ رہا۔ واللہ اعلم۔