پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے دن جنتوں میں اور نہروں میں ہوں گے بخلاف ان بدکرداروں کے جو عذاب و سزا، طوق و زنجیر، سختی اور مار پیٹ میں ہوں گے۔ جو فرائض الٰہی ان کے پاس آئے تھے یہ ان کے عامل تھے اور ان سے پہلے بھی وہ اخلاص سے کام کرنے والے تھے۔
لیکن اس تفسیر میں ذرا تامل ہے دو وجہ سے اول تو یہ کہ یہ تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی کہی جاتی ہے لیکن سند صحیح سے ان تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کی یہ سند بالکل ضعیف ہے۔
دوسرے یہ کہ «اٰخِذِیْنَ» کا لفظ حال ہے، اگلے جملے سے تو یہ مطلب ہوا کہ متقی لوگ جنت میں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں حاصل کر رہے ہوں گے اس سے پہلے وہ بھلائی کے کام کرنے والے تھے یعنی دنیا میں جیسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اور آیتوں میں فرمایا «كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ»[69-الحاقة:24] یعنی ” دار دنیا میں تم نے جو نیکیاں کی تھیں ان کے بدلے اب تم یہاں شوق سے پاکیزہ و پسندیدہ کھاتے پیتے رہو “۔