تفسير ابن كثير



تعارف اللہ بزبان اللہ ٭٭

یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت «وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ» [ 21۔ الانبیآء: 32 ] ‏‏‏‏ یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت «اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ» [ 40۔ غافر: 64 ] ‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق، سب کا رازق، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لیے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو۔

صحیحین میں حدیث ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کون سا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا۔ [صحیح بخاری:6001:صحیح] ‏‏‏‏ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہما والی حدیث میں ہے جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں۔ [صحیح بخاری:3856:صحیح] ‏‏‏‏ دوسری حدیث میں ہے تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے، پھر جو فلاں چاہے۔ [سنن ابوداود:4980، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

طفیل بن سنجرہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے؟ میں نے کہا ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا۔ یاد رکھو اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے۔ [مسند احمد:72/5:صحیح] ‏‏‏‏

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے۔ [النسائی فی السنن الکبرٰی:10825:حسن] ‏‏‏‏ ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی یہ بھی شرک ہے، انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے، کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے، کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا۔ یہ سب کلمات شرک ہیں۔

صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔ [مسند احمد:394/1] ‏‏‏‏ ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «اَنْدَاداً» کے معنی شریک اور برابر کے ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو؟



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.