تفسير ابن كثير



مذاق اور عیب گیری کی ممانعت ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بدگمانی کرنے، تہمت رکھنے اپنوں اور غیروں کو خوفزدہ کرنے، خواہ مخواہ کی دہشت دل میں رکھ لینے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بسا اوقات اکثر اس قسم کے گمان بالکل گناہ ہوتے ہیں پس تمہیں اس میں پوری احتیاط چاہیئے۔

سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تیرے مسلمان بھائی کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک تجھ سے ہو سکے اسے بھلائی اور اچھائی پر محمول کر۔‏‏‏‏

ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا: تو کتنا پاک گھر ہے؟، تو کیسی بڑی حرمت والا ہے؟، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے ۔ [سنن ابن ماجہ:3932،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث صرف ابن ماجہ میں ہی ہے۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بدگمانی سے بچو، گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے، بھید نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو، حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو، سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو۔ [صحیح بخاری:6066] ‏‏‏‏

مسلم وغیرہ میں ہے ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو، ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کر لیا کرو، ایک دوسرے کا حسد بغض نہ کیا کرو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے آپس میں دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گزارو۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے ۔ [صحیح بخاری:6564] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے کہ تین خصلتیں میری امت میں رہ جائیں گی فال لینا، حسد کرنا اور بدگمانی کرنا، ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! پھر ان کا تدارک کیا ہے؟ فرمایا: جب حسد کرے تو استغفار کر لے، جب گمان پیدا ہو تو اسے چھوڑ دے اور یقین نہ کر اور جب شگون لے خواہ نیک نکلے، خواہ بد اپنے کام سے نہ رک اسے پورا کر ۔ [طبرانی کبیر:3727:ضعیف] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے کہ ایک شخص کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں آپ نے فرمایا: ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں ۔‏‏‏‏ [سنن ابوداود:4890،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وحین کے پاس ابولہیثم گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں، آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کر دو، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا: وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا آپ نے فرمایا: افسوس! افسوس! تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو، سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا ۔ [سنن ابوداود:4891،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر تو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے کے درپے ہو گا تو، تو انہیں بگاڑ دے گا، یا فرمایا ممکن ہے تو انہیں خراب کر دے۔‏‏‏‏ ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس حدیث سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بہت فائدہ پہنچایا ۔ [سنن ابوداود:4888،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابوداؤد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ امیر اور بادشاہ جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی برائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے اور گہرا اترنا شروع کر دیتا ہے تو انہیں بگاڑ دیتا ہے ۔ [سنن ابوداود:4889،قال الشيخ الألباني:صحیح لغیرہ] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو یعنی برائیاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو تاک جھانک نہ کیا کرو۔ اسی سے جاسوس ماخذ ہے «تجسس» کا اطلاق عموماً برائی پر ہوتا ہے اور «تحسس» کا اطلاق بھلائی ڈھونڈنے پر۔ جیسے یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں «يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّ‌وْحِ اللَّـهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّ‌وْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُ‌ونَ» [12-یوسف:87] ‏‏‏‏، بچو تم جاؤ اور یوسف کو ڈھونڈو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اور کبھی کبھی ان دونوں کا استعمال شر اور برائی میں بھی ہوتا ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے نہ «تجسس» کرو، نہ «تحسس» کرو، نہ حسد و بغض کرو، نہ منہ موڑو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «تجسس» کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور «تحسس» کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں۔ اور «تدابر» کہتے ہیں ایک دوسرے سے رک کر آزردہ ہو کر قطع تعلقات کرنے کو۔

پھر غیبت سے منع فرماتا ہے، ابوداؤد میں ہے لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو، تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی؟ فرمایا: ہاں! غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے ۔ [سنن ابوداود:4874،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ صفیہ تو ایسی ایسی ہیں، مسدد راوی کہتے ہیں یعنی کم قامت، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے ۔

اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص کی کچھ ایسی ہی باتیں بیان کی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسے پسند نہیں کرتا مجھے چاہے ایسا کرنے میں کوئی بہت بڑا نفع بھی مل جائے ۔ [سنن ابوداود:4875،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے کہ ایک بی بی صاحبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں آئیں جب وہ جانے لگیں تو صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے کہا کہ یہ بہت پست قامت ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ان کی غیبت کی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:395/11] ‏‏‏‏

الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا: یہ بہت برا آدمی ہے [صحیح بخاری:6054] ‏‏‏‏

اور جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: معاویہ مفلس شخص ہے اور ابوالجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے ۔ [صحیح مسلم:1480] ‏‏‏‏ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔

اسی لیے یہاں فرمایا کہ ” جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیئے “۔

جیسے حدیث میں ہے اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لیے لائق نہیں ۔ [صحیح بخاری:2622] ‏‏‏‏

حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے ۔ [صحیح بخاری:67] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے ۔ [صحیح مسلم:2564] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے اے وہ لوگو! جن کی زبانیں تو ایمان لا چکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے، تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو، یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے ۔ [سنن ابوداود:4880،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏

مسند ابو یعلیٰ میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کے کانوں میں بھی اپنی آواز پہنچائی اور اس خطبہ میں اوپر والی حدیث بیان فرمائی ۔ [مسند ابویعلیٰ:1675:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تیری حرمت و عظمت کا کیا ہی کہنا ہے لیکن تجھ سے بھی بہت زیادہ حرمت ایک ایماندار شخص کی اللہ کے نزدیک ہے ۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي:5763،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اسی جیسی پوشاک جہنم کی پہنائی جائے گی اور جو شخص کسی دوسرے کی بڑائی دکھانے سنانے کو کھڑا ہوا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دکھاوے سناوے کے مقام میں کھڑا کر دے گا ۔ [سنن ابوداود:4881،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے ۔ [سنن ابوداود:4878،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج والی رات میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جن میں مرد و عورت دونوں تھے کہ فرشتے ان کے پہلوؤں سے گوشت کاٹتے ہیں اور پھر انہیں اس کے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ اسے چبا رہے ہیں، میرے سوال پر کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طعنہ زن، غیبت گو، چغل خور تھے، انہیں جبراً آج خود ان کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:308/22:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث بہت مطول ہے اور ہم نے پوری حدیث سورۃ سبحٰن کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»

مسند ابوداؤد طیالسی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزے کا حکم دیا اور فرمایا: جب تک میں نہ کہوں کوئی افطار نہ کرے، شام کو لوگ آنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت دیتے اور وہ افطار کرتے، اتنے میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا جو آپ ہی کے متعلقین میں سے ہیں انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئیے کہ روزہ کھول لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا اس نے دوبارہ عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ روزے سے نہیں ہیں، کیا وہ بھی روزے دار ہو سکتا ہے؟ جو انسانی گوشت کھائے، جاؤ انہیں کہو کہ اگر وہ روزے سے ہیں تو قے کریں۔ چنانچہ انہوں نے قے کی جس میں خون جمے کے لوتھڑے نکلے اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ اسی حالت میں مر جاتیں تو آگ کا لقمہ بنتیں ۔ [مسند طیالسی:2107:ضعیف] ‏‏‏‏ اس کی سند ضعیف ہے اور متن بھی غریب ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے کہا تھا: اے اللہ کے رسول ! ان دونوں عورتوں کی روزے میں بری حالت ہے، مارے پیاس کے مر رہی ہیں اور یہ دوپہر کا وقت تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی پر اس نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو مر گئی ہوں گی یا تھوڑی دیر میں مر جائیں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ انہیں بلا لاؤ، جب وہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا مٹکا ایک کے سامنے رکھ کر فرمایا: اس میں قے کر، اس نے قے کی تو اس میں پیپ خون جامد وغیرہ نکلی جس سے آدھا مٹکا بھر گیا پھر دوسری سے قے کرائی اس میں بھی یہی چیزیں اور گوشت کے لوتھڑے وغیرہ نکلے اور مٹکا بھر گیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دیکھو حلال روزہ رکھے ہوئے تھیں اور حرام کھا رہی تھیں دونوں بیٹھ کر لوگوں کے گوشت کھانے لگی تھیں (‏‏‏‏یعنی غیبت کر رہی تھیں) ۔ [مسند احمد:431/5:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند حافظ ابو یعلیٰ میں ہے کہ سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا یہاں تک کہ وہ چار مرتبہ کہہ چکے، پھر پانچویں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تو نے زنا کیا ہے؟، جواب دیا ہاں، فرمایا: جانتا ہے زنا کسے کہتے ہیں؟، جواب دیا، ہاں! جس طرح انسان اپنی حلال عورت کے پاس جاتا ہے اسی طرح میں نے حرام عورت سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تیرا مقصد کیا ہے؟ کہا: یہ کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اسی طرح دخول کیا تھا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور لکڑی کنویں میں؟، کہا: ہاں، یا رسول اللہ !، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کرنے یعنی پتھراؤ کرنے کا حکم دیا چنانچہ یہ رجم کر دئے گئے ۔ [سنن ابوداود:4419،قال الشيخ الألباني:صحيح دون قوله لعله أن] ‏‏‏‏

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس نے اپنے تئیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ کتے کی طرح پتھراؤ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سنتے ہوئے چلتے رہے تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ راستے میں ایک مردہ گدھا پڑا ہوا ہے فرمایا: فلاں فلاں شخص کہاں ہیں؟ وہ سواری سے اتریں اور اس گدھے کا گوشت کھائیں، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے کیا یہ کھانے کے قابل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی بدی بیان کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ بری چیز تھی۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص جسے تم نے برا کہا تھا وہ تو اب اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے ، اس کی اسناد صحیح ہے۔ [نسائی فی السنن الکبری:7164:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ نہایت سڑی ہوئی مرداری بو والی ہوا چلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو، یہ بو کس چیز کی ہے؟ یہ بدبو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ۔

اور روایت میں ہے کہ منافقوں کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ بدبودار ہوا وہ ہے ۔ [مسند احمد:351/3:قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک سفر میں دو شخصوں کے ساتھ تھے جن کی یہ خدمت کرتے تھے اور وہ انہیں کھانا کھلاتے تھے ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ سو گئے تھے اور قافلہ آگے چل پڑا۔ پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان دونوں نے دیکھا کہ سلمان رضی اللہ عنہ نہیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں خیمہ کھڑا کرنا پڑا اور غصہ سے کہا: سلمان تو بس اتنے ہی کام کا ہے کہ پکی پکائی کھا لے اور تیار خیمے میں آ کر آرام کر لے۔ تھوڑی دیر بعد سلمان رضی اللہ عنہ پہنچے ان دونوں کے پاس سالن نہ تھا تو کہا: تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے سالن لے آؤ۔ یہ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے میرے دونوں ساتھیوں نے بھیجا ہے کہ اگر آپ کے پاس سالن ہو تو دے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سالن کا کیا کریں گے؟ انہوں نے تو سالن پا لیا، سلمان واپس گئے اور جا کر ان سے یہ بات کہی وہ اٹھے اور خود حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ! ہمارے پاس تو سالن نہیں، نہ آپ نے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مسلمان کے گوشت کا سالن کھا لیا جبکہ تم نے انہیں یوں کہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ» [49-الحجرات:12] ‏‏‏‏ اس لیے کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور یہ ان کی غیبت کر رہے تھے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:102/6:ضعیف] ‏‏‏‏

مختار ابوضیاء میں تقریبًا ایسا ہی واقعہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے اس خادم کا گوشت تمہارے دانتوں میں اٹکا ہوا دیکھ رہا ہوں، اور ان کا اپنے غلام سے جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور ان کا کھانا تیار نہیں کیا تھا صرف اتنا ہی کہنا مروی ہے کہ یہ تو بڑا سونے والا ہے، ان دونوں بزرگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ ہمارے لیے استغفار کریں ۔ [المختارۃ للمقدسی:71/5:حسن] ‏‏‏‏

ابو یعلیٰ میں ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا (‏‏‏‏یعنی اس کی غیبت کی) قیامت کے دن اس کے سامنے وہ گوشت لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جیسے اس کی زندگی میں تو نے اس کا گوشت کھایا تھا اب اس مردے کا گوشت بھی کھا۔ اب یہ چیخے گا چلائے گا ہائے وائے کرے گا اور اسے جبراً وہ مردہ گوشت کھانا پڑے گا۔ یہ روایت بہت غریب ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ اللہ کا لحاظ کرو، اس کے احکام بجا لاؤ، اس کی منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ اور اس سے ڈرتے رہا کرو۔ جو اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو اس پر بھروسہ کرے اس کی طرف رجوع کرے وہ اس پر رحم اور مہربانی فرماتا ہے۔

جمہور علماء کرام فرماتے ہیں غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کر چکا ہے اس پر نادم ہونا بھی شرط ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کر لے۔

بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لیے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہو گا۔ پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اولاً بدلہ ہو جائے گا۔

مسند احمد میں ہے جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالیٰ پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہو جائے ۔ یہ حدیث ابوداؤد میں بھی ہے۔ [سنن ابوداود:4883،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

ابوداؤد کی ایک اور حدیث میں ہے جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالیٰ ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالیٰ بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا ۔ [سنن ابوداود:4884،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.