کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ ٭٭
اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہم راز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں پھنس نہ جانا ورنہ موقعہ پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے تم انہیں اپنا راز دار ہرگز نہ سمجھنا راز کی باتیں ان کے کانوں تک ہرگز نہ پہنچانا
«بِطَانَةً» کہتے ہیں انسان کے راز دار دوست کو اور «مِنْ دُونِكُمْ» سے مراد اہلِ اسلام کے سوا تمام فرقے ہیں بخاری وغیرہ میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نبی کو اللہ نے مبعوث فرمایا اور جس خلیفہ کو مقرر کیا اس کیلئے دو «بطانہ» مقرر کئے ایک تو بھلائی کی بات سمجھانے والا اور اس پر رغبت دینے والا اور دوسرا برائی کی رہبری کرنے والا اور اس پر آمادہ کرنے والا بس اللہ جسے بچائے وہی بچ سکتا ہے، [صحیح بخاری:6611]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا محرر اور منشی مقرر کر لیں آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے، [تفسیر ابن ابی حاتم:500/2]
اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ ان کی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے۔
ازہر بن راشد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیثیں سنتے تھے اگر کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو حسن بصری رحمہ اللہ سے جا کر مطلب حل کر لیتے تھے ایک دن انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ مشرکوں کی آگ سے روشنی طلب نہ کرو اور اپنی انگوٹھی میں عربی نقش نہ کرو انہوں نے آ کر حسن بصری رحمہ اللہ سے اس کی تشریح دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پچھلے جملہ کا تو یہ مطلب ہے کہ انگوٹھی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھدواؤ اور پہلے جملہ کا یہ مطلب ہے کہ مشرکوں سے اپنے کاموں میں مشورہ نہ لو، دیکھو کتاب اللہ میں بھی ہے کہ ایمان دارو! اپنے سوا دوسروں کو ہمراز نہ بناؤ [مسند احمد:99/3:ضعیف] [ابو یعلی ]
لیکن حسن بصری رحمہ اللہ کی یہ تشریح قابل غور ہے حدیث کا ٹھیک مطلب غالباً یہ ہے کہ محمد رسول اللہ عربی خط میں اپنی انگوٹھیوں پر نقش نہ کراؤ، چنانچہ اور حدیث میں صاف ممانعت موجود ہے [صحیح مسلم:2092] یہ اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے ساتھ مشابہت نہ ہو اور اول جملے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے درمیان کی لڑائی کی آگ کو کیا تم نہیں دیکھتے؟ [سنن ابوداود:2645،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور حدیث میں ہے جو مشرکوں سے میل جول کرے یا ان کے ساتھ رہے بسے وہ بھی انہی جیسا ہے [سنن ابوداود:2787،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرمایا ان کی باتوں سے بھی ان کی عداوت ٹپک رہی ہے ان کے چہروں سے بھی قیافہ شناس ان کی باطنی خباثتوں کو معلوم کر سکتا ہے پھر جو ان کے دلوں میں تباہ کن شرارتیں ہیں وہ تو تم سے مخفی ہیں لیکن ہم نے تو صاف صاف بیان کر دیا ہے عاقل لوگ ایسے مکاروں کی مکاری میں نہیں آتے
پھر فرمایا دیکھو کتنی کمزوری کی بات ہے کہ تم ان سے محبت رکھو اور وہ تمہیں نہ چاہیں، تمہارا ایمان کل کتاب پر ہو اور یہ شک شبہ میں ہی پڑے ہوئے ہوں ان کی کتاب کو تم تو مانو لیکن یہ تمہاری کتاب کا انکار کریں تو چاہیئے تو یہ تھا کہ تم خود انہیں کڑی نظروں سے دیکھتے لیکن برخلاف اس کے یہ تمہاری عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ سامنا ہو جائے تو اپنی ایمانداری کی داستان بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب ذرا الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب سے جلن اور حسد سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں پس مسلمانوں کو بھی ان کی ظاہرداری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ یہ چاہے جلتے بھنتے رہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو ترقی دیتا رہے گا مسلمان دن رات ہر حیثیت میں بڑھتے ہی رہیں گے گو وہ مارے غصے کے مر جائیں۔ اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بخوبی واقف ہے ان کے تمام منصوبوں پر خاک پڑے گی یہ اپنی شرارتوں میں کامیاب نہ ہو سکیں گے اپنی چاہت کے خلاف مسلمانوں کی دن دوگنی ترقی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں والی جنت حاصل کرتے دیکھیں گے برخلاف ان کے یہ خود یہاں بھی رسوا ہوں گے اور وہاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے
ان کی شدت عداوت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے کہ جہاں تمہیں کوئی نفع پہنچتا ہے یہ کلیجہ مسوسنے لگے اور اگر [ اللہ نہ کرے ] تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے لگتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد ہوئی یہ کفار پر غالب آئے انہیں غنیمت کا مال ملا یہ تعداد میں بڑھ گے تو وہ جل بجھے اور اگر مسلمانوں پر تنگی آ گئی یا دشمنوں میں گھر گئے تو ان کے ہاں عید منائی جانے لگی۔
اب اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان شریروں کی شرارت اور ان بدبختوں کے مکر سے اگر نجات چاہتے ہو تو صبرو تقویٰ اور توکل کرو اللہ عزوجل خود تمہارے دشمنوں کو گھیر لے گا کسی بھلائی کے حاصل کرنے، کسی برائی سے بچنے کی کسی میں طاقت نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہو سکتا جو اس پر توکل کرے اسے وہ کافی ہے۔ اسی مناسبت سے اب جنگ احد کا ذکر شروع ہوتا ہے جس پر مسلمانوں کے صبرو تحمل کا بیان ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی آزمائش کا پورا نقشہ ہے اور جس میں مومن و منافق کی ظاہری تمیز ہے سنئے ارشاد ہوتا ہے