تفسير ابن كثير



باب

پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تسلی دے رہا ہے کہ آپ کی قوم نے اگر آپ کو جھٹلایا، آپ کی قدر نہ کی، آپ کی مخالفت کی، ایذاء رسانی کے درپے ہوئے تو یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہے؟ اگلے اولوالعزم پیغمبروں کو یاد کرو کہ کیسی کیسی ایذائیں، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کن کن زبردست مخالفوں کی مخالفت کو صبر سے برداشت کیا ان رسولوں کے نام یہ ہیں نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، اور خاتم الانبیاء اللھم صلی علیہم اجمعین۔

انبیاء علیہ السلام کے بیان میں ان کے نام خصوصیت سے سورۃ الاحزاب اور سورۃ شوریٰ میں مذکور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولوالعزم رسول سے مراد سب پیغمبر علیہ السلام ہوں تو «من الرسل» کا «من» بیان جنس کے لیے ہو گا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے پھر روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے اور پھر روزہ رکھا پھر فرمانے لگے عائشہ محمد اور آل محمد کے لائق تو دنیا ہے ہی نہیں۔ عائشہ دنیا کی بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور دنیا کی خواہش کی چیزوں سے اپنے تئیں بچائے رکھنے کا حکم اولوالعزم رسول کئے گئے اور وہی تکلیف مجھے بھی دی گئی ہے جو ان عالی ہمت رسولوں کو دی گئی تھی۔ قسم اللہ کی میں بھی انہی کی طرح اپنی طاقت بھر صبر و سہار سے ہی کام لوں گا اللہ کی قوت کے بھروسے پر یہ بات زبان سے نکال رہا ہوں۔ [شرح السنة للبغوی4046ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرمایا: اے نبی! یہ لوگ عذابوں میں مبتلا کئے جائیں اس کی جلدی نہ کرو۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا» ۔ [73-المزمل:11] ‏‏‏‏

اور «فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا» [86-الطارق:17] ‏‏‏‏، یعنی کافروں کو مہلت دو، انہیں تھوڑی دیر چھوڑ دو۔

پھر فرماتا ہے جس دن یہ ان چیزوں کا مشاہدہ کر لیں گے جن کے وعدے آج دئیے جاتے ہیں اس دن انہیں معلوم ہونے لگے گا کہ دنیا میں صرف دن کا کچھ ہی حصہ گزارا ہے۔

اور آیت میں ہے «أَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا» [79-النازعات:46] ‏‏‏‏ یعنی ” جس دن یہ قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ گویا دنیا میں صرف ایک صبح یا ایک شام ہی گزاری تھی “۔

«وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاءِ اللّٰهِ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ» [10-یونس:45] ‏‏‏‏ یعنی ” جس دن ہم انہیں جمع کریں گے تو یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ گویا دن کی ایک ساعت ہی دنیا میں رہے تھے “۔

پھر فرمایا پہنچا دینا ہے۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دنیا کا ٹھہرنا صرف ہماری طرف سے ہماری باتوں کے پہنچا دینے کے لیے تھا دوسرے یہ کہ یہ قرآن صرف پہنچا دینے کیلئے ہے یہ کھلی تبلیغ ہے۔

پھر فرماتا ہے سوائے فاسقوں کے اور کسی کو ہلاکی نہیں۔ یہ اللہ جل و علا کا عدل ہے کہ جو خود ہلاک ہوا اسے ہی وہ ہلاک کرتا ہے، عذاب اسی کو ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں اپنے لیے عذاب مہیا کرے اور اپنے آپ کو مستحق عذاب کر دے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

«الحمدللہ» سورۃ الاحقاف کی تفسیر اختتام پذیر ہوئی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.