طائف سے واپسی پر جنات نے کلام الہٰی سنا ، شیطان بوکھلایا ٭٭
مسند امام احمد میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ واقعہ نخلہ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز عشاء ادا کر رہے تھے، یہ سب جنات سمٹ کر آپ کے اردگرد بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہو گئے ۔ [مسند احمد:167/1:حسن]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ یہ جنات «نصیبین» کے تھے تعداد میں سات تھے ۔
کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، آپ تو اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جا رہے تھے ادھر یہ ہوا تھا شیاطین کے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان روک ہو گئی تھی اور ان پر شعلے برسنے شروع ہو گئے تھے۔ شیاطین نے آ کر اپنی قوم کو یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے جاؤ تلاش کرو پس یہ نکل کھڑے ہوئے ان میں کی جو جماعت عرب کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ جب یہاں پہنچی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے نخلہ میں اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی نماز پڑھا رہے تھے ان کے کانوں میں جب آپ کی تلاوت کی آواز پہنچی تو یہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر بغور سننے لگے اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمانوں تک پہنچنا موقوف کر دیا گیا ہے یہاں سے فوراً ہی واپس لوٹ کر اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان سے کہنے لگے «قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا»[72-الجن:1] ہم نے عجیب قرآن سنا جو نیکی کا رہبر ہے ہم تو اس پر ایمان لا چکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب ناممکن ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک کریں۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الجن میں دی ، یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:773]
مسند میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنات وحی الٰہی سنا کرتے تھے ایک کلمہ جب ان کے کان میں پڑ جاتا تو وہ اس میں دس ملا لیا کرتے پس وہ ایک تو حق نکلتا باقی سب باطل نکلتے اور اس سے پہلے ان پر تارے پھینکے نہیں جاتے تھے۔ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان پر شعلہ باری ہونے لگی، یہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پہنچتے اور ان پر شعلہ گرتا اور یہ ٹھہر نہ سکتے انہوں نے آ کر ابلیس سے یہ شکایت کی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے پایا اور جا کر اسے خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو آسمان محفوظ کر دیا گیا اور تمہارا جانا بند ہوا ۔ یہ روایت ترمذی اور نسائی میں بھی ہے۔ [سنن ترمذي:3324،قال الشيخ الألباني:صحیح]
حسن بصری رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ اس واقعہ کی خبر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی تب آپ نے یہ معلوم کیا۔
سیرت ابن اسحاق میں محمد بن کعب کا ایک لمبا بیان منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا انہیں اسلام کی دعوت دینا ان کا انکار کرنا وغیرہ پورا واقعہ بیان ہے۔
حسن رحمہ اللہ نے اس دعا کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے اس تنگی کے وقت کی تھی جو یہ ہے «اللّهُمّ إلَيْك أَشْكُو ضَعْفَ قُوّتِي، وَقِلّةَ حِيلَتِي، وَهَوَانِي عَلَى النّاسِ، يَا أَرْحَمَ الرّاحِمِينَ! أَنْتَ رَبّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَأَنْتَ رَبّي، إلَى مَنْ تَكِلُنِي؟ إلَى بَعِيدٍ يَتَجَهّمُنِي؟ أَمْ إلَى عَدُوّ مَلّكْتَهُ أَمْرِي؟ إنْ لَمْ يَكُنْ بِك عَلَيّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِي، وَلَكِنّ عَافِيَتَك هِيَ أَوْسَعُ لِي، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِك الّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنْزِلَ بِي غَضَبَك، أَوْ يَحِلّ عَلَيّ سُخْطُكَ، لَك الْعُتْبَى حَتّى تَرْضَى، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوّةَ إلّا بِك» یعنی اپنی کمزوری اور بےسروسامانی اور کسمپرسی کی شکایت صرف تیرے سامنے کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو دراصل سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہے اور کمزوروں کا رب تو ہی ہے میرا پالنہار بھی تو ہی ہے، تو مجھے کس کو سونپ رہا ہے کسی دوری والے دشمن کو جو مجھے عاجز کر دے یا کسی قرب والے دوست کو جسے تو نے میرے بارے اختیار دے رکھا ہو، اگر تیری کوئی خفگی مجھ پر نہ ہو تو مجھے اس درد دکھ کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تاہم اگر تو مجھے عافیت کے ساتھ ہی رکھ تو وہ میرے لیے بہت ہی راحت رساں ہے، میں تیرے چہرے کے اس نور کے باعث جس کی وجہ سے تمام اندھیریاں جگمگا اٹھی ہیں اور دین و دنیا کے تمام امور کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تجھ سے اس بات کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ مجھ پر تیرا عتاب اور تیرا غصہ نازل ہو یا تیری ناراضگی مجھ پر آ جائے، مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی مدد سے ہے۔ اسی سفر کی واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ میں رات گزاری اور اسی رات قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے «نصیبین» کے جنوں نے آپ کو سنا ۔ [سیرۃ ابن ہشام21/2:مرسل] یہ ہے تو صحیح لیکن اس میں قول تامل طلب ہے اس لیے کہ جنات کا، کلام اللہ سننے کا واقعہ وحی شروع ہونے کے زمانے کا ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا اپنے چچا ابوطالب کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو ہجرت کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جیسے کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ابن ابی شیبہ میں ان جنات کی گنتی نو کی ہے جن میں سے ایک کا نام زوبعہ ہے۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں [دلائل النبوۃ للبیهقی:228/2:]
پس یہ روایت اور اس سے پہلے کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کا اقتضاء یہ ہے کہ اس مرتبہ جو جن آئے تھے ان کی موجودگی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا یہ تو آپ کی بے خبری میں ہی آپ کی زبانی قرآن سن کر واپس لوٹ گئے اس کے بعد بطور وفد فوجیں کی فوجیں اور جتھے کے جتھے ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کہ اس ذکر کے احادیث و آثار اپنی جگہ آ رہے ہیں۔ «ان شاءاللہ»
بخاری و مسلم میں ہے عبدالرحمٰن نے مسروق رحمہا اللہ سے پوچھا کہ جس رات جنات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا اس رات کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر کیا تھا؟ تو فرمایا مجھ سے تیرے والد سیدنا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ہے ان کی آگاہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت نے دی تھی ۔ [صحیح بخاری:3859] تو ممکن ہے کہ یہ خبر پہلی دفعہ کی ہو اور اثبات کو ہم نفی پر مقدم مان لیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب وہ سن رہے تھے آپ کو تو کوئی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اس درخت نے آپ کو ان کے اجتماع کی خبر دی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے بعد والے کئی واقعات میں سے ایک ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
امام حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو دیکھا نہ خاص ان کے سنانے کے لیے قرآن پڑھا ہاں البتہ اس کے بعد جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ عزوجل کی طرف بلایا جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
اس کی روایتیں سنئے۔ علقمہ رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی نہ تھا آپ رات بھر ہم سے غائب رہے اور ہمیں رہ رہ کر باربار یہی خیال گزرا کرتا تھا کہ شاید کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا، اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو، وہ رات ہماری بڑی بری طرح کٹی، صبح صادق سے کچھ ہی پہلے ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آ رہے ہیں، پس ہم نے رات کی اپنی ساری کیفیت بیان کر دی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جنات کا قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جا کر میں نے انہیں قرآن سنایا“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر گئے اور ان کے نشانات اور ان کی آگ کے نشانات ہمیں دکھائے۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں انہوں نے آپ سے توشہ طلب کیا تو عامر کہتے ہیں یعنی مکے میں اور یہ جن جزیرے کے تھے تو آپ نے فرمایا: ”ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ گوشت والی ہو کر پڑے گی، اور لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا، پس اے مسلمانو! ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہیں“۔ [صحیح مسلم:450-150]
دوسری روایت میں ہے کہ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پا کر ہم بہت ہی گھبرائے تھے اور تمام وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کر آئے تھے ۔ [ایضاً]
اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میں جنات کو قرآن سناتا رہا اور جنوں میں ہی اسی شغل میں رات گزاری“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری31320:ضعیف]
ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو چاہے آج کی رات جنات سے دلچسپی لینے والا میرے ساتھ رہے“، پس میں موجود ہو گیا آپ مجھے لے کر چلے جب مکہ شریف کے اونچے حصے میں پہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک خط کھینچ دیا اور مجھ سے فرمایا: ”بس یہیں بیٹھے رہو“، پھر آپ چلے اور ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرأت شروع کی پھر تو اس قدر جماعت آپ کے اردگرد ٹھٹ لگا کر کھڑی ہو گئی کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سننے سے بھی رہ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جس طرح ابر کے ٹکڑے پھٹتے ہیں اس طرح وہ ادھر ادھر جانے لگے اور یہاں تک کہ اب بہت تھوڑے باقی رہ گئے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے دور نکل گئے اور حاجت سے فارغ ہو کر میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے ”وہ باقی کے کہاں ہیں؟“ میں نے کہا: وہ یہ ہیں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہڈی اور لید دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:31319:ضعیف]
اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا وہاں بٹھا کر فرما دیا تھا کہ خبردار یہاں سے نکلنا نہیں ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت آ کر ان سے دریافت کیا کہ کیا تم سو گئے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں نہیں , اللہ کی قسم! میں نے تو کئی مرتبہ چاہا کہ لوگوں سے فریاد کروں لیکن میں نے سن لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی لکڑی سے دھمکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بیٹھ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم یہاں سے باہر نکلتے، تو مجھے خوف تھا کہ ان میں کے بعض تمہیں اچک نہ لے جائیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اچھا تم نے کچھ دیکھا بھی؟ میں نے کہا: ہاں، لوگ تھے سیاہ انجان خوفناک، سفید کپڑے پہنے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ [ «نصیبین» ] کے جن تھے انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا پس میں نے ہڈی اور لید، گوبر دیا، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! اس سے انہیں کیا فائدہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر ہڈی ان کے ہاتھ لگتے ہی ایسی ہو جائے گی جیسی اس وقت تھی جب کھائی گئی تھی یعنی گوشت والی ہو کر انہیں ملے گی اور لید میں بھی وہی دانے پائیں گے جو اس روز تھے جب وہ دانے کھائے گئے تھے پس ہم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء سے نکل کر ہڈی لید اور گوبر سے استنجاء نہ کرے“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:31317،ضعیف]
اس روایت کی دوسری سند میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پندرہ جنات جو آپس میں چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں آج رات مجھ سے قرآن سننے کیلئے آنے والے ہیں۔ اس میں ہڈی اور لید کے ساتھ کوئلے کا لفظ بھی ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دن نکلے میں اسی جگہ گیا تو دیکھا کہ وہ کوئی ساٹھ اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے ۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:231/2:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ جب جنات کا اژدھام ہو گیا تو ان کے سردار نے کہا: یا رسول اللہ ! میں انہیں ادھر ادھر کر کے آپ کو اس تکلیف سے بچا لیتا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ”اللہ سے زیادہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔“ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جنات والی رات میں مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ ! پانی تو نہیں البتہ ایک ڈولچی نبیذ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمدہ کھجوریں اور پاکیزہ پانی“۔ [سنن ابوداود:84،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس سے وضو کراؤ“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور فرمایا: ”یہ تو پینے کی اور پاک چیز ہے“۔ [مسند احمد:398/1:ضعیف]
جب آپ لوٹ کر آئے تو سانس چڑھ رہا تھا میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس میرے انتقال کی خبر آئی ہے“۔ [مسند احمد:449/1:ضعیف]
یہی حدیث قدرے زیادتی کے ساتھ حافظ ابونعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے اس میں ہے کہ میں نے یہ سن کر کہا: پھر یا رسول اللہ ! اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر جائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”کس کو؟“ میں نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے چلتے چلتے پھر کچھ دیر بعد یہی حالت طاری ہوئی۔ میں نے وہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا۔ میں نے خلیفہ مقرر کرنے کو کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کسے؟“ میں نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر آپ خاموش ہو گئے کچھ دور چلنے کے بعد پھر یہی حالت اور یہی سوال جواب ہوئے اب کی مرتبہ میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر یہ لوگ ان کی اطاعت کریں تو سب جنت میں چلے جائیں گے۔“[طبرانی کبیر:9970:ضعیف]
لیکن یہ حدیث بالکل ہی غریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ محفوظ نہ ہو اور اگر صحت تسلیم کر لی جائے تو اس واقعہ کو مدینہ کا واقعہ ماننا پڑے گا۔ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنوں کے وفود آئے تھے جیسے کہ ہم عنقریب ان شاءاللہ تعالیٰ بیان کریں گے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت فتح مکہ کے بعد تھا جب کہ دین الٰہی میں انسانوں اور جنوں کی فوجیں داخل ہو گئیں اور سورۃ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا»[110-النصر:1-3] ، اتر چکی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر انتقال دی گئی تھی۔ جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اس پر موافقت ہے جو حدیثیں ہم اسی سورت کی تفسیر میں لائیں گے ان شاءاللہ۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
مندرجہ بالا حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کی سند بھی غریب ہے اور سیاق بھی غریب ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ جنات جزیرہ موصل کے تھے ان کی تعداد بارہ ہزار کی تھی۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس خط کشیدہ کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے، لیکن جنات کے کھجوروں کے درختوں کے برابر کے قد و قامت وغیرہ دیکھ کر ڈر گئے اور بھاگ جانا چاہا لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ گیا کہ اس حد سے باہر نہ نکلنا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس حد سے باہر آ جاتے تو قیامت تک ہماری تمہاری ملاقات نہ ہو سکتی“ اور روایت میں ہے کہ جنات کی یہ جماعت جن کا ذکر آیت «وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ»[46-الأحقاف:29] میں ہے نینویٰ کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ انہیں قرآن سناؤں تم میں سے میرے ساتھ کون چلے گا؟ اس پر سب خاموش ہو گئے، دوبارہ پوچھا: پھر خاموشی رہی، تیسری مرتبہ دریافت کیا تو قبیلہ ہذیل کے شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تیار ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر حجون کی گھاٹی میں گئے۔ ایک لکیر کھینچ کر انہیں یہاں بٹھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ یہ دیکھنے لگے کہ گدھوں کی طرح کے زمین کے قریب اڑتے ہوئے کچھ جانور آ رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد بڑا غل غپاڑہ سنائی دینے لگا یہاں تک کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ڈر لگنے لگا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ شور و غل کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے ایک مقتول کا قصہ تھا، جس میں یہ مختلف تھے، ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دیا گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:297/11:مرسل]
یہ واقعات صاف ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصدًا جا کر جنات کو قرآن سنایا، انہیں اسلام کی دعوت دی اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بتا دئیے۔ ہاں پہلی مرتبہ جب جنات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن سنا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ معلوم تھا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کے بعد وہ وفود کی صورت میں آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمداً تشریف لے گئے اور انہیں قرآن سنایا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نہ تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات چیت کی انہیں اسلام کی دعوت دی البتہ کچھ فاصلہ پر دور بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ اس واقعہ میں سوائے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اور کوئی نہ تھا اور دوسری تطبیق ان روایات میں جن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تھے اور جن میں ہے کہ نہ تھے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ نہ تھے دوسری مرتبہ تھے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
یہ بھی مروی ہے کہ نخلہ میں جن جنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تھی وہ نینویٰ کے تھے اور مکہ شریف میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے وہ (نصیبین) کے تھے۔ اور یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ ہم نے وہ رات بہت بری بسر کی اس سے مراد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں، جنہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کو قرآن سنانے گئے ہیں۔ لیکن یہ تاویل ہے ذرا دور کی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بیہقی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پانی کی ڈولچی لیے ہوئے جایا کرتے تھے، ایک دن یہ پیچھے پیچھے پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون ہے؟“ جواب دیا کہ میں ابوہریرہ ہوں، فرمایا: ”میرے استنجے کے لیے پتھر لاؤ لیکن ہڈی اور لید نہ لانا“، میں اپنی جھولی میں پتھر بھر لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھ دئیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو چکے اور چلنے لگے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا اور پوچھا یا رسول اللہ ! کیا وجہ ہے جو آپ نے ہڈی اور لید سے منع فرما دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”میرے پاس [ نصیبین ] کے جنوں کا وفد آیا تھا اور انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا تو میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جس لید اور ہڈی پر گذریں اسے طَعام پائیں“۔ [بیهقی فی السنن الکبریٰ:233/2:ضعیف]
صحیح بخاری میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے [صحیح بخاری:3860]
پس یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ جنات کا وفد آپ کے پاس اس کے بعد بھی آیا تھا۔
اب ہم ان احادیث کو بیان کرتے ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ جنات آپ کے پاس کئی دفعہ حاضر ہوئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے سوا بھی آپ سے دوسری سند سے مروی ہے ابن جریر میں ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:297/11]
آپ فرماتے ہیں یہ سات جن تھے (نصیبین) کے رہنے والے۔ انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قاصد بنا کر جنات کی طرف بھیجا تھا، مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ جنات تعداد میں سات تھے (نصیبین) کے تھے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کو اہل حران سے، کہا اور چار کو اہل (نصیبین) سے، ان کے نام یہ ہیں۔ «حسی»، «حسا»، «منسی»، «ساحر»، «ناصر»، «الاردوبیان»، «الاحتم» ۔
ابوحمزہ ثمالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہیں بنو شیصبان کہتے ہیں یہ قبیلہ جنات کے اور قبیلوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ ان میں نصب کے بھی شریف مانے جاتے تھے اور عموماً یہ ابلیس کے لشکروں میں سے تھے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ نو تھے ان میں سے ایک کا نام روبعہ تھا، اصل نخلہ سے آئے تھے۔ بعض حضرات سے مروی ہے کہ یہ پندرہ تھے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ ساٹھ اونٹوں پر آئے تھے اور ان کے سردار کا نام وردان تھا اور کہا گیا ہے کہ تین سو تھے اور یہ بھی مروی ہے کہ بارہ ہزار تھے۔
ان سب میں تطبیق یہ ہے کہ چونکہ وفود کئی ایک آئے تھے ممکن ہے کہ کسی میں چھ سات نو ہی ہوں کسی میں زیادہ کسی میں اس سے بھی زیادہ۔
اس پر دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جس چیز کی نسبت جب کبھی کہتے کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہو گی تو وہ عمومًا اسی طرح نکلتی، ایک مرتبہ آپ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک حسین شخص گزرا آپ رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر فرمایا: اگر میرا گمان غلط نہ ہو تو یہ شخص اپنے جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کا کاہن تھا، جانا ذرا اسے لے آنا، جب وہ آ گیا تو آپ نے اپنا یہ خیال اس پر ظاہر فرمایا، وہ کہنے لگا مسلمانوں میں اس ذہانت و فطانت کا کوئی شخص آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو اپنی کوئی صحیح اور سچی خبر سنا، اس نے کہا: بہت اچھا سنئے میں جاہلیت کے زمانہ میں ان کا کاہن تھا، میرے پاس میرا جن جو سب سے زیادہ تعجب خیز خبر لایا وہ سنئے۔ میں ایک مرتبہ بازار جا رہا تھا تو وہ آ گیا اور سخت گھبراہٹ میں تھا اور کہنے لگا، کیا تو نے جنوں کی بربادی مایوسی اور ان کے پھیلنے کے بعد سمٹ جانا اور ان کی درگت نہیں دیکھی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یہ سچا ہے میں ایک مرتبہ ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا ایک شخص نے وہاں ایک بچھڑا چڑھایا کہ ناگہاں ایک سخت پُرزور آواز آئی، ایسی کہ اتنی بلند اور کرخت آواز میں نے کبھی نہیں سنی اس نے کہا: اے جلیح! نجات دینے والا امر آ چکا، ایک شخص ہے جو فصیح زبان سے «لا الہ الا اللہ» کی منادی کر رہا ہے۔ سب لوگ تو مارے ڈر کے بھاگ گئے لیکن میں وہیں بیٹھا رہا کہ دیکھوں آخر یہ کیا ہے؟ کہ دوبارہ پھر اسی طرح وہی آواز سنائی دی اور اس نے وہی کہا پس کچھ ہی دن گزرے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں ۔ [صحیح بخاری:3866]
اس روایت سے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آوازیں اس ذبح شدہ بچھڑے سے سنیں اور ایک ضعیف روایت میں صریح طور پر یہ آ بھی گیا ہے لیکن باقی اور روایتیں یہ بتلا رہی ہیں کہ اسی کاہن نے اپنے دیکھنے سننے کا ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہی کہا ہے اور یہی کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے اس شخص کا نام سواد بن قارب تھا جو شخص اس واقعہ کی پوری تفصیل دیکھنا چاہتا ہو وہ میری کتاب سیرۃ عمر دیکھ لے۔ «وللہ الحمد المنہ»
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ممکن ہے یہی وہ کاہن ہو جس کا ذکر بغیر نام کے صحیح حدیث میں ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ خطبہ سنا رہے تھے، اسی میں پوچھا کیا سواد بن قارب یہاں موجود ہیں لیکن اس پورے سال تک کسی نے ہاں نہیں کہی، اگلے سال آپ رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا، تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا: سواد بن قارب کون ہے؟ اس سے کیا مطلب ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کے اسلام لانے کا قصہ عجیب و غریب ہے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں جو سواد بن قارب آ گئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: سواد اپنے اسلام کا ابتدائی قصہ سناؤ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنئے میں ہند گیا ہوا تھا، میرا ساتھی جن ایک رات میرے پاس آیا میں اس وقت سویا ہوا تھا، مجھے اس نے جگا دیا اور کہنے لگا اٹھ اور اگر کچھ عقل و ہوش ہیں تو سن لے سمجھ لے اور سوچ لے قبیلہ لوی بن غالب میں سے اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں، میں جنات کی حس اور ان کے بوریہ بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں اگر تو طالب ہدایت ہے تو فوراً مکے کی طرف کوچ کر، سمجھ لے کہ بہتر اور بدتر جن یکساں نہیں، جا جلدی جا اور بنو ہاشم کے اس دلارے کے منور مکھڑے پر نظریں تو ڈال لے، مجھے پھر غنودگی سی آ گئی تو اس نے دوبارہ جگایا اور کہنے لگا، اے سواد بن قارب! اللہ عزوجل نے اپنا رسول بھیج دیا ہے تم ان کی خدمت میں پہنچو اور ہدایت اور بھلائی سمیٹ لو۔ دوسری رات پھر آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا مجھے جنات کے جستجو کرنے اور جلد جلد پالان اور جھولیں کسنے پر تعجب معلوم ہوتا ہے اگر تو بھی ہدایت کا طالب ہے تو مکے کا قصد کر۔ سمجھ لے کہ اس کے دونوں قدم اس کی دموں کی طرح نہیں، تو اٹھ اور جلدی جلدی بنو ہاشم کے اس پسندیدہ شخص کی خدمت میں پہنچ اور اپنی آنکھیں اس کے دیدار سے منور کر۔ تیسری رات پھر آیا اور کہنے لگا مجھے جنات کے باخبر ہو جانے اور ان کے قافلوں کے فوراً تیار ہو جانے پر تعجب آ رہا ہے وہ سب طلب ہدایت کے لیے مکہ کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ان میں کے برے بھلوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بھی اٹھ اور اس بنو ہاشم کے چیدہ شخص کی طرف چل کھڑا ہو۔ مومن جنات کافروں کی طرح نہیں، تین راتوں تک برابر یہی سنتے رہنے کے بعد میرے دل میں بھی دفعتًہ اسلام کا ولولہ اٹھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور محبت سے دل پر ہو گیا، میں نے اپنی سانڈنی پر کجاوہ کسا اور بغیر کسی جگہ قیام کئے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت شہر مکہ میں تھے اور لوگ آپ کے آس پاس ایسے تھے جیسے گھوڑے پر ایال۔ مجھے دیکھتے ہی یکبارگی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سواد بن قارب کو مرحبا ہو، آؤ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے اور کس لیے اور کس کے کہنے سننے سے آ رہے ہو“، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! میں نے کچھ اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟ آپ نے فرمایا: ”سواد شوق سے کہو“،تو سواد نے وہ اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے کہ میرے پاس میرا جن میرے سو جانے کے بعد رات کو آیا اور اس نے مجھے ایک سچی خبر پہنچائی، تین راتیں برابر وہ میرے پاس آتا رہا اور ہر رات کہتا رہا کہ لوی بن غالب اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں، میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی اور جلد جلد راہ طے کرتا یہاں پہنچ ہی گیا، اب میری گواہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کوئی رب نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے امانت دار رسول ہیں، آپ سے شفاعت کا آسرا سب سے زیادہ ہے، اے بہترین بزرگوں اور پاک لوگوں کی اولاد، اے تمام رسولوں سے بہتر رسول، جو حکم آسمانی آپ ہمیں پہنچائیں گے وہ کتنا ہی مشکل اور طبیعت کے خلاف کیوں نہ ہو ناممکن کہ ہم اسے ٹال دیں، آپ قیامت کے دن ضرور میرے سفارشی بننا کیونکہ وہاں بجز آپ کے سواد بن قارب کا سفارشی اور کون ہو گا؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہنسے اور فرمانے لگے: ”سواد تم نے فلاح پا لی۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ سن کر پوچھا: کیا وہ جن اب بھی تیرے پاس آتا ہے اس نے کہا: جب سے میں نے قرآن پڑھا وہ نہیں آتا اور اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اس کے عوض میں نے رب کی پاک کتاب پائی ۔ [بیهقی فی السنن اکبریٰ:249/2:ضعیف]
اور اب جس حدیث کو ہم حافظ ابونعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے نقل کرتے ہیں اس میں بھی اس کا بیان ہے کہ مدینہ شریف میں بھی جنات کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بازیاب ہوا تھا۔ سیدنا عمرو بن غیلان ثقفی، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے پاس جا کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس رات جنات کا وفد حاضر نبوت ہوا تھا اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ بھی تھے؟ جواب دیا کہ ہاں ٹھیک ہے، میں نے کہا: ذرا واقعہ تو سنائیے۔ فرمایا: صفہ والے مساکین صحابہ کو لوگ اپنے اپنے ساتھ شام کا کھانا کھلانے لے گئے اور میں یونہی رہ گیا، میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، پوچھا: کون ہے؟ میں نے کہا: ابن مسعود، فرمایا: تمہیں کوئی نہیں لے گیا کہ تم بھی کھا لیتے؟ میں نے جواب دیا نہیں، کوئی نہیں لے گیا، فرمایا: اچھا میرے ساتھ چلو شاہد کچھ مل جائے تو دے دوں گا، میں ساتھ ہو لیا آپ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں گئے، میں باہر ہی ٹھہر گیا، تھوڑی دیر میں اندر سے ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم نے اپنے گھر میں کوئی چیز نہیں پائی، تم اپنی خواب گاہ میں چلے جاؤ۔ میں واپس مسجد میں آ گیا اور مسجد میں کنکریوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر کر کے اس پر سر رکھ کر اپنا کپڑا لپیٹ کر سو گیا تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی تو وہی لونڈی پھر آئیں اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو یاد فرما رہے ہیں، ساتھ ہو لیا اور مجھے امید پیدا ہو گئی کہ اب تو کھانا ضرور ملے گا، جب میں اپنی جگہ پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کے درخت کی ایک چھڑی تھی جسے میرے سینے پر رکھ کر فرمانے لگے، جہاں میں جا رہا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے کہا: جو اللہ نے چاہا ہو، تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا، تھوڑی دیر میں بقیع غرقد جا پہنچے، پھر قریب قریب وہی بیان ہے جو اوپر کی روایتوں میں گزر چکا ہے۔ اس کی سند غریب ہے اور اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا ۔
دلائل النبوۃ میں حافظ ابونعیم فرماتے ہیں کہ مدینہ کی مسجد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی اور لوٹ کر لوگوں سے کہا: ”آج رات کو جنات کے وفد کی طرف تم میں سے کون میرے ساتھ چلے گا؟“ کسی نے جواب نہ دیا تین مرتبہ فرمان پر بھی کوئی نہ بولا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے، مدینہ کے پہاڑوں سے بہت آگے نکل کر صاف چٹیل میدان میں پہنچ گئے، اب نیزوں کے برابر لمبے لمبے قد کے آدمی، نیچے نیچے کپڑے پہنے ہوئے آنے شروع ہوئے، میں تو انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے کانپنے لگا [ ضعیف ] پھر اور واقعہ مثل حدیث سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیان کیا ، یہ حدیث بھی غریب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اسی کتاب میں ایک غریب حدیث میں ہے کہ عبداللہ کے ساتھی حج کو جا رہے تھے راستے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ سانپ راستے میں لوٹ رہا ہے اور اس میں سے مشک کی خوشبو اڑ رہی ہے، ابراہیم کہتے ہیں، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم تو سب جاؤ میں یہاں ٹھہر جاتا ہوں، دیکھوں تو اس سانپ کا کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ وہ چل دئیے اور میں ٹھہر گیا، تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی جو وہ سانپ مر گیا، میں نے ایک سفید کپڑا لے کر اس میں لپیٹ کر راستے کے ایک طرف دفن کر دیا اور رات کے کھانے کے وقت اپنے قافلے میں پہنچ گیا، اللہ کی قسم! میں بیٹھا ہوا تھا، جو چار عورتیں مغرب کی طرف آئیں، ان میں سے ایک نے پوچھا: عمرو کو کس نے دفن کیا؟ ہم نے کہا: کون عمرو؟ اس نے کہا: تم میں سے کسی نے ایک سانپ کو دفن کیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے دفن کیا ہے، کہنے لگی قسم ہے اللہ کی تم نے بڑے روزے دار بڑے پختہ نمازی کو دفن کیا ہے جو تمہارے نبی کو مانتا تھا اور جس نے آپ کے نبی ہونے سے چار سو سال پیشتر آسمان سے آپ کی صفت سنی تھی۔ [ابونعیم فی الحلیة275] ابراہیم کہتے ہیں اس پر ہم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حج سے فارغ ہو کر جب ہم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا: اس عورت نے سچ کہا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر ایمان لایا تھا میری نبوت کے چار سو سال پہلے ، یہ حدیث بھی غریب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ایک روایت میں ہے کہ دفن کفن کرنے والے سیدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ تھے، کہتے ہیں کہ یہ صاحب جو یہاں دفن کئے گئے یہ ان نو جنات میں سے ایک ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن سننے کے لیے وفد بن کر آئے تھے، ان کا انتقال ان سب سے اخیر میں ہوا ۔
ابونعیم میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے امیر المؤمنین! میں ایک جنگل میں تھا، میں نے دیکھا کہ دو سانپ آپس میں خوب لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ اب میں انہیں چھوڑ کر جہاں معرکہ ہوا تھا وہاں گیا تو بہت سے سانپ قتل کئے ہوئے پڑے ہیں اور بعض سے اسلام کی خوشبو آ رہی ہے پس میں نے ایک ایک کو سونگھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک زرد رنگ کے دبلے پتلے سانپ سے مجھے اسلام کی خوشبو آنے لگی، میں نے اپنے عمامے میں لپیٹ کر اسے دفنا دیا، اب میں چلا جا رہا تھا، جو میں نے ایک آواز سنی کہ اے اللہ کے بندے تجھے اللہ کی طرف سے ہدایت دی گئی۔ یہ دونوں سانپ جنات کے قبیلہ بنو شیعبان اور بنو اقیش میں سے تھے۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پھر جس قدر قتل ہوئے وہ تم نے خود دیکھ لیے انہی میں ایک شہید جنہیں تم نے دفن کیا وہ تھے جنہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وحی الٰہی سنی تھی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس قصے کو سن کر فرمانے لگے: اے شخص! اگر تو سچا ہے تو اس میں شک نہیں کہ تو نے عجب واقعہ دیکھا اور اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹ کا بوجھ تجھ پر ہے ۔ [ابونعیم فی الحلیة256،منکر]
اب آیت کی تفسیر سنئے ارشاد ہے کہ جب ہم نے تیری طرف جنات کے ایک گروہ کو پھیرا جو قرآن سن رہا تھا جب وہ حاضر ہو گئے اور تلاوت شروع ہونے کو تھی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ ادب سکھایا کہ خاموشی سے سنو۔ ان کا ایک اور ادب بھی حدیث میں آیا ہے۔
ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے سورۃ الرحمن کی تلاوت کی پھر فرمایا: ”کیا بات ہے؟ جو تم سب خاموش ہی رہے، تم سے تو بہت اچھے جواب دینے والے جنات ثابت ہوئے، جب بھی میرے منہ سے انہوں نے «فَبِاَيِّ اٰلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ»[55-الرحمن:13] سنی انہوں نے جواب میں کہا: «ولا بشیءٍ من الائک او نعمک ربنا نکذب فلک الحمد»۔
پھر فرماتا ہے جب فراغت حاصل کی گئی۔ «قضی» کے معنی ان آیتوں میں بھی یہی ہیں «فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ»[62-الجمعة:10] ۔
اور «فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ»[2-البقرة:200] وہ اپنی قوم کو دھمکانے اور انہیں آگاہ کرنے کے لیے واپس ان کی طرف چلے۔
جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے «فَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ»[9-التوبہ:122] ، یعنی وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب واپس اپنی قوم کے پاس پہنچیں تو انہیں بھی ہوشیار کر دیں بہت ممکن ہے کہ وہ بچاؤ اختیار کر لیں۔
اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جنات میں بھی اللہ کی باتوں کو پہنچانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن ان میں سے رسول نہیں بنائے گئے، یہ بات بلا شک ثابت ہے کہ جنوں میں پیغمبر نہیں ہیں۔
فرمان باری ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى»[12-یوسف:109] یعنی ” ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی بھیجا کرتے تھے “۔
اور آیت میں ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً اَتَصْبِرُوْنَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا»[25-الفرقان:20] یعنی ” تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے “۔
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسبت قرآن میں ہے «وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ»[29-العنكبوت:27] یعنی ” ہم نے ان کی اولاد میں نبوۃ اور کتاب رکھ دی “،پس آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ آپ علیہ السلام ہی کے خاندان اور آپ علیہ السلام ہی کی نسل میں سے ہوئے ہیں۔
لیکن سورۃ الانعام کی آیت «يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا»[6-الانعام:130] یعنی ” اے جنوں اور انسانوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ “ اس کا مطلب اور اس سے مراد یہ دونوں جنس ہیں پس اس کا مصداق ایک جنس ہی ہو سکتی ہے، جیسے فرمان «يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ»[55-الرحمن:22] یعنی ” ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے “ حالانکہ دراصل ایک میں سے ہی نکلتا ہے۔