تفسير ابن كثير



بارگاہ رسالت میں یہودی وفد ٭٭

مسند احمد میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ہم آپ سے چند سوال کرنا چاہتے ہیں جن کے جواب نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں آپ نے فرمایا پوچھو لیکن پہلے تم لوگ وعدہ کرو اگر میں صحیح صحیح جواب دے دوں تو تمہیں میری نبوت کے تسلیم کر لینے میں کوئی عذر نہ ہو گا انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا کہ اگر آپ نے سچے جواب دے تو ہم اسلام قبول کر لیں گے ساتھ ہی انہوں نے بڑی بڑی قسمیں بھی کھائیں پھر پوچھا کہ بتائیے۔ اسرائیل نے کیا چیز اپنے اوپر حرام کی تھی؟ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ اور نبی امی کی نیند کیسی ہے؟ اور فرشتوں میں سے کون سا فرشتہ اس کے پاس وحی لے کر آتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب اسرائیل سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے شفاء دے گا تو میں سب سے زیادہ پیاری چیز کھانے پینے کی چھوڑ دوں گا جب شفاء یاب ہو گئے تو اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیا، مرد کا پانی سفید رنگ اور گاڑھا ہوتا ہے اور عورت کا پانی زردی مائل پتلا ہوتا ہے دونوں سے جو اوپر آ جائے اس پر اولاد نر مادہ ہوتی ہے، اور شکل و شباہت میں بھی اسی پر جاتی ہے۔ اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ میرے پاس وحی لے کر وہی فرشتہ آتا ہے جو تمام انبیاء کے پاس بھی آتا رہا یعنی جبرائیل علیہ السلام،

بس اس پر وہ چیخ اٹھے اور کہنے لگے کوئی اور فرشتہ آپ کا ولی ہوتا تو ہمیں آپ کی نبوت تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ رہتا۔ ہر سوال کے جواب کے وقت آپ انہیں قسم دیتے اور ان سے دریافت فرماتے اور وہ اقرار کرتے کہ ہاں جواب صحیح ہے انہیں کے بارے میں آیت «قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ» [2-البقرة:97] ‏‏‏‏، نازل ہوئی- [مسند احمد:278/1:حسن بالشواھد] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ اسرائیل کو عرق النساء کی بیماری تھی اور اس میں ان کا ایک پانچواں سوال یہ بھی ہے کہ یہ رعد کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو بادلوں پر مقرر ہے اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے جس سے بادلوں کا جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو لے جاتا ہے اور یہ گرج کی آواز اسی کی آواز ہے۔ جبرائیل علیہ السلام کا نام سن کر یہ کہنے لگے وہ تو عذاب اور جنگ وجدال کا فرشتہ ہے اور ہمارا دشمن ہے، اگر پیداوار اور بارش کے فرشتے میکائیل علیہ السلام آپ کے رفیق ہوتے تو ہم مان لیتے۔ [سنن ترمذي:3117،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا یعقوب علیہ السلام کی روش پر ان کی اولاد بھی رہی اور وہ بھی اونٹ کے گوشت سے پرہیز کرتی رہی، اس آیت کو اگلی آیت سے مناسبت ایک تو یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل علیہ السلام نے اپنی چہیتی چیز اللہ کی نذر کر دی اسی طرح تم بھی کیا کرو۔ لیکن یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیز کا نام اللہ پر ترک کر دیتے تھے اور ہماری شریعت میں یہ طریقہ نہیں بلکہ ہمیں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام پر خرچ کر دیا کریں، جیسے فرمایا آیت «وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ» [2-البقرة:177] ‏‏‏‏

اور فرمایا آیت «وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا» [76-الإنسان:8] ‏‏‏‏ باوجود محبت اور چاہت کے وہ ہماری راہ میں مال خرچ کرتے اور مسکینوں کو کھانا دیتے ہیں،

دوسری مناسبت یہ بھی ہے کہ پہلی آیتوں میں نصرانیوں کی تردید تھی تو یہاں یہودیوں کا رد ہو رہا ہے ان کے رد میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا صحیح واقعہ بتا کر ان کے عقیدے کا رد کیا تھا، یہاں نسک کا صاف بیان کر کے ان کے باطل عقیدے کی تردید میں ارشاد ہو رہا ہے ان کی کتاب میں صاف موجود تھا جب سیدنا نوح علیہ السلام کشتی پر اترے تا ان پر تمام جانوروں کا کھانا حلال تھا پھر سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اونٹ کا گوشت اور دودھ اپنے اوپر حرام کر لیا تو ان کی اولاد بھی اسے حرام جانتی رہی چنانچہ توراۃ میں بھی اس کی حرمت نازل ہوئی، اسی طرح اور بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے؟

سیدنا آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد کا آپس میں بہن بھائی کا نکاح ابتداء جائز ہوتا تھا لیکن بعد میں حرام کر دیا، عورتوں پر لونڈیوں سے نکاح کرنا شریعت ابراہیمی میں مباح تھا خود ابراہیم علیہ السلام سیدہ سارہ پر سیدہ ہاجرہ علیہما السلام کو لائے، لیکن پھر توراۃ میں اس سے روکا گیا، دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا سیدنا یعقوب علیہ السلام کے زمانہ میں جائز تھا بلکہ خود سیدنا یعقوب علیہ السلام کے گھر میں بیک وقت دو سگی بہنیں تھیں لیکن پھر توراۃ میں یہ حرام ہو گیا اسی کو نسخ کہتے ہیں

اسے وہ دیکھ رہے ہیں اپنی کتاب میں پڑھ رہے ہیں لیکن پھر نسخ کا انکار کر کے انجیل کو اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے اور ان کے بعد ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں، تو یہاں فرمایا کہ توراۃ کے نازل ہونے سے پہلے تمام کھانے حلال تھے سوائے اس کے جسے اسرائیل علیہ السلام نے اپنی جان پر حرام کر لیا تھا تم توراۃ لاؤ اور پڑھو اس میں موجود ہے، پھر اس کے باوجود تمہاری یہ بہتان بازی اور افتراء پردازی کہ اللہ نے ہمارے لیے ہفتہ ہی کے دن کو ہمیشہ کے لیے عید کا دن مقرر کیا ہے اور ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم ہمیشہ توراۃ ہی کے عامل رہیں اور کسی اور نبی کو نہ مانیں یہ کس قدر ظلم و ستم ہے، تمہاری یہ باتیں اور تمہاری یہ روش یقیناً تمہیں ظالم و جابر ٹھہراتی ہے۔

اللہ نے سچی خبر دے دی ابراہیمی دین وہی ہے جسے قرآن بیان کر رہا ہے تم اس کتاب اور اس نبی کی پیروی کرو ان سے اعلیٰ کوئی نبی ہے نہ اس سے بہتر اور زیادہ واضح کوئی اور شریعت ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت «قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ» [6-الأنعام:161] ‏‏‏‏ اے نبی تم کہ دو کہ مجھے میرے رب نے موحد ابراہیم حنیف کے مضبوط دین کی سیدھی راہ دکھا دی ہے۔

اور جگہ ہے ہم نے تیری طرف وحی کی کہ موحد ابراہیم حنیف کے دین کی تابعداری کر۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.